امیر اہلسنت کی دینی خدمات

   (11 تَخَصُّصْ فِی الْفِقْہ

  (مفتی پروڈکشن

شرعی اعتبار سے حصولِ علم کی صورتیں   یہ ہیں  : فرضِ عین،  فرضِ کفایہ،  مستحب،  حرام،  مکروہ اور مباح۔ پہلی قسم تو وہ علم ہے جس کا حاصل کرنا شریعت میں   ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض عین ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے بنیادی عقائد کا سیکھنا فرض ہے،  اس کے بعد نَماز،  روزہ،  زکوٰۃ اور حج وغیرہ فرض ہونے کی صورت میں   ان کے ضَروری مسائل،  نکاح کرنا چاہے تو اس کے ، تاجر کو خرید و فروخت کے،  نوکری کرنے والے کو نوکری کے،  نوکر رکھنے والے کو اجارے کے،  وَ عَلٰی ھٰذَا  الْقِیاس   (یعنی اوراسی پر قِیاس کرتے ہوئے)   ہر مسلمان عاقِل و بالِغ مرد و عورت پر اُس کی موجودہ حالت کے مطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عَین ہے۔ اِسی طرح ہر ایک کیلئے مسائلِ حلال و حرام بھی سیکھنا فرض ہے۔ نیز مسائلِ قلب   (باطِنی فرائض)   یعنی فرائضِ قَلْبِیہ   (باطِنی فرائض)   مَثَلاً عاجِزی و اِخلاص اور توکُّل وغیرہ اور ان کو حاصِل کرنے کا طریقہ اور باطِنی گناہ مَثَلاً تکبُّر،  ریاکاری،  حَسَد وغیرہ اور ان کا علاج سیکھنا ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔ مُہلکات یعنی ہلاکت میں   ڈالنے والی چیزوں   جیسا کے جھوٹ،  غیبت،  چغلی،  بہتان وغیرہ کے بارے میں   ضَروری معلومات حاصل کرنا بھی فرض ہے تاکہ ان گنا ہوں   سے بچا جاسکے۔   ([1]

علم کی دوسری قسم وہ ہے جس کا حاصل کرنا شریعت میں   فرض کفایہ ہے یعنی جس کا حاصل کرنا اور بجالانا ہر فرد پر ضروری نہیں   بلکہ اگر کچھ لوگ بھی اسے کر لیں   گے تو فرض کی ادائیگی ہوجائے گی اور باقی لوگ گنہگار اور تارکِ فرض نہ ہوں   گے۔ چنانچہ وہ علوم جو فرضِ کفایہ کی حیثیت رکھتے ہیں   ان سے مراد وہ علوم ہیں   جو انسانی معاشرت اور امورِ دنیا کو قائم رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہیں  ،  جیسے طب،  لغت،  قراء ت،  اسنادِ احادیث،  وصایا،  وراثت کی تقسیم،  کتابت،  معانی و بدیع و بیان،  معرفت،  ناسخ ومنسوخ  کے علوم اور علوم صنعت و حرفت،  فلاحت و کاشت وغیرہ یہ تمام علوم فرض کفایہ ہیں  ۔

علم کی تیسری قسم وہ ہے جس کا حاصل کرنا شرعاً مندوب و مستحسن ہے اور وہ ہے فقہ اور علم القلب   (یعنی اخلاق کے متعلق رہنمائی کرنے والے علم)   میں   مہارت پیدا کرنا اور عبور حاصل کرنا۔ تَبَحُّر فِی الْفِقْہ کا مطلب یہ ہے کہ فقہ میں   معلومات کا زیادہ سے زیادہ ہونا اور گہرائی و باریکی پر نظر رکھنا اور فقہ سے متعلق دیگر علوم شرعیہ میں   بھی مہارت تامہ اور ملکہ   (علم اور تجربے وغیرہ سے حاصل کردہ مہارت وچابکدستی)   حاصل ہونا۔ عِلْمُ الْقَلْب سے مراد علم الاخلاق ہے یعنی اچھے و برے اخلاق کے فضائل و نقصانات جاننے اور فضائل کے حصول اور نقصانات سے بچنے اور محفوظ رہنے کے راستے و طریقے جاننا۔

علم کی چوتھی قسم حرام ہے جیسے فلسفہ کا وہ حصہ جس میں   عالَم کے قدیم ہونے،  اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کا انکار کرنے،  آسمانوں   کے وجود کا انکار کرنے اور دیگر کفریات و محرمات کی تعلیم دی جاتی ہو لیکن اگر کوئی شخص اپنے اسلام کی پختگی کے ساتھ ان کا ردّ کرنے کے لیے اور لوگوں   کو اس علم کی گمراہی سے بچانے کے لیے یہ علم حاصل کرے تو جائز ہے۔ شعبدہ بازی،  سحر،  کہانت اور منطق کے علم کا وہ حصہ جس سے ضلالت و گمراہی پیدا ہو ان سب کا حاصل کرنا بھی حرام ہے۔ اسی طرح اگر علم نجوم سے مقصود یہ ہو کہ اس کے ذریعہ سے ماہ و سال،  اوقاتِ صلوٰۃ،  سمتوں   اور موسموں   کی اقسام کا حال معلوم کیا جائے اور زکوٰۃ و حج کے اوقات کو جانا جائے تو مضائقہ نہیں   یہ جائز ہے اور اگر مقصود یہ ہو کہ اس کے ذریعہ آنے والے حوادث اور غیبی امور کو معلوم کیا جائے وغیرہ وغیرہ توحرام ہے۔

علم کی پانچویں   قسم مکروہ ہے جیسے شعرا کے وہ عشقیہ اشعار جن میں   عورتوں   اور نوخیز نوجوانوں   کے حسن،  نازوادا،  ان کے ہجرو وصال اور شراب و کباب کی باتیں   ہوں   یا لغوگوئی اور کذب بیانی ہو یا ان میں   مسلمان کی ہجو کی گئی ہو۔

علم کی چھٹی قسم وہ ہے جس کا حاصل کرنا مباح ہے جیسے شعرا کے وہ اشعار جن میں   کسی مسلمان کی ہجویا تذلیل ہو نہ اس کی عزت و آبرو پر حملہ ہو۔ نیز



[1]   غیبت کی تباہ کاریاں،  ص ۵  ملخصاً

Index