امیر اہلسنت کی دینی خدمات

کر دیاکہ میں   نے اپنے بھانجے عمر کو پناہ دی۔ ابو جہل کا یہ اعلان سن کر سب لوگ ہٹ گئے۔ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ اسلام لانے کے بعد میں   ہمیشہ کفار کو مارتا اور ان کی مار کھاتا رہا یہاں   تک کہ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ نے اسلام کو غالب فرما دیا۔  ([1]

حضرت سعد بن معاذ کا قبولِ اسلام:

جب سرکارِ دوجہان،  سرورِ ذِیشان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ سیدنا مصعب بن عمیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو مسلمانوں   کی تعلیم وتربیت کیلئے مدینہ منورہ بھیجا،  اس وقت حضرتِ سیدنا سعد بن معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے،  اسلام قبول کر لینے کے بعد بنو عبدا لاشھل سے کہا: جب تک تم لوگ اسلام نہیں   لاؤ گے تمہارے مردوں   اور عورتوں   سے میری گفتگو حرام ہے۔ یہ سن کر وہ سب مسلمان ہو گئے۔ ان کا اسلام قبول کرنا بہت بڑی برکت تھا۔  ([2]مِرْاٰۃُ الْمَنَاجیح جلد8کے آخر میں   منسلک رسالے  ’’ اجمال ترجمۂ اکمال ‘‘  کے صفحہ 31 پر ہے کہ انصار میں  سب سے پہلے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کاگھرانہ ایمان لایا۔ حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو سَیِّدُ الانصار کا لقب دیا۔ اپنی قوم کے سردار تھے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے اسلام لانے پر بہت سے اشہلی لوگ مسلمان ہو گئے۔

دعوتِ اِسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 875 صفْحات پر مشتمل کتاب  ’’ سیرتِ مصطفےٰ  ‘‘  صفحہ152 پر ہے: حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے حضرت مصعب بن عمیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو مدینہ منورہ بھیجا۔ وہ مدینہ میں   حضرت اسعد بن زرارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے مکان پر ٹھہرے اور انصار کے ایک ایک گھر میں   جا جا کر اسلام کی تبلیغ کرنے لگے اور روزانہ ایک دو نئے آدمی آغوش اسلام میں   آنے لگے۔ یہاں   تک کہ رفتہ رفتہ مدینہ سے قبا تک گھر گھر اسلام پھیل گیا۔

قبیلہ اَوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بہت ہی بہادر اور بااثر شخص تھے۔ حضرت مُصعب بن عمیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جب ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو انہوں   نے پہلے تو اسلام سے نفرت و بیزاری ظاہر کی مگر جب حضرت مُصعب بن عمیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ان کو قرآنِ مجید پڑھ کر سنایا تو ایک دم اُن کا دل پسیج گیا اور اس قدَر متاثر ہوئے کہ سعادتِ ایمان سے سرفراز ہو گئے۔ ان کے مسلمان ہوتے ہی ان کا قبیلہ  ’’ اوس ‘‘  بھی دامنِ اسلام میں   آ گیا۔

حاتم طائی کی بیٹی اور بیٹے کا قبولِ اسلام:

اسی کتاب کے صفحہ485پر لکھا ہے کہ ربیع الآخر 9ہجری میں   حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی ماتحتی میں   ایک سو پچاس سواروں   کو اس لئے بھیجا کہ وہ قبیلہ  ’’ طی ‘‘  کے بت خانہ کو گرا دیں  ۔ ان لوگوں   نے شہرفلس میں   پہنچ کر بت خانہ کو منہدم کر ڈالا اور کچھ اونٹوں   اور بکریوں   کو پکڑ کر اور چند عورتوں   کو گرفتار کرکے یہ لوگ مدینہ لائے۔ ان قیدیوں   میں   مشہور سخی حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی۔ حاتم طائی کا بیٹا عدی بن حاتم بھاگ کر ملک شام چلا گیا۔ حاتم طائی کی لڑکی جب بارگاہ رسالت میں   پیش کی گئی تو اس نے کہا یا رسول ﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں    ’’ حاتم طائی ‘‘  کی لڑکی ہوں  ۔ میرے باپ کا انتقال ہو گیا اور میرا بھائی  ’’ عدی بن حاتم ‘‘  مجھے چھوڑ کر بھاگ گیا،  میں   ضعیفہ ہوں   آپ مجھ پر احسان کیجئے اللہ  عَزَّ وَجَلَّ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر احسان کرے گا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو چھوڑ دیا اور سفر کے لئے ایک اونٹ بھی عنایت فرمایا۔ یہ مسلمان ہو کر اپنے بھائی عدی بن حاتم کے پاس پہنچیں   اور اس کو حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اخلاقِ نبوت سے آگاہ کیا اور رسول ﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بہت زیادہ تعریف کی۔ عدی بن حاتم اپنی بہن کی زبانی حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کے خلقِ عظیم اور عاداتِ کریمہ کے حالات سن کر بے حد متاثر ہوئے اور بغیر کوئی امان طلب کئے ہوئے مدینہ حاضر ہو گئے۔ لوگوں   نے بارگاہِ نبوت میں   یہ خبر دی کہ عدی بن حاتم آ گیا ہے۔ حضور رحمۃللعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انتہائی کریمانہ انداز سے عدی بن حاتم کے ہاتھ کو اپنے دست ِرحمت میں   



[1]    شرح الزرقانی علی المواہب،  اسلام الفاروق،  ج۲،  ص ۵ تا ۹ ماخوذا

[2]    اسد الغابۃ،  الرقم ۲۰۴۶ سعد بن معاذ،  ج۲،  ص۴۴۱

Index