امیر اہلسنت کی دینی خدمات

اللہ  کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں   میں

اے دعوتِ اسلامی تری دھوم مچی ہو

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

٭٭٭٭

  (5)   مدنی چینل

دورِ حاضر میں   میڈیا ذہن سازی و کردارسازی میں   ایک کارگر ہتھیار کا کام کر رہا ہے جس سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اچھے و برے افکارو نظریات پھیلانے کے لئے میڈیا ایک بہترین و مؤثر ذریعہ ہے۔ بہت سے لوگ اپنے مخصوص گمراہ کن اور باطل نظریات پھیلانے کے لیے شب و روز اس کا بھرپور استعمال کرنے لگے،  وہ مسلمانوں   کو گمراہ کرنے کے لیے ہر طرح کی سازشوں   میں   مصروف ہو گئے تو مسلمانوں   کی نسلِ نو اُن کی ریشہ دوانیوں     (سازشوں  )   کے برے اثرات و افکار کی لپیٹ میں   آ گئی اور اُن کے میڈیا کے ذریعے فحاشی وعریانی کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ بدعقیدگی و بد عملی کے تیار کئے گئے پھندوں   میں   عوامِ اہل سنت بُری طرح پھنس گئے۔ ہر درد مند دل کی بس ایک ہی صدا تھی: جس طرح لوہا لوہے کو کاٹتا ہے،  اسی طرح کاش! کوئی میڈیا کی اس جنگ میں   عقائد اہل سنت کی پاسبانی کا علم اٹھا لے اور طاغوتی طاقتوں   کو خوش کرنے والے مروّت و شرافت کے منافی اور بے حیائی پھیلانے والے چینلز کے مقابل پاکیزگی و طہارتِ فکر اور اصلاحِ عقائد و اعمال کا علمبردار ایک ایسا خالص اسلامی چینل شروع کیا جائے جو نہ صرف سنیوں   کا ترجمان ہو بلکہ بدعقیدگی کے اس لق و دق   (چٹیل،  ویران)   صحرا میں   ایک نَخْلِستَان   (ریگستان میں   سرسبز و شاداب حصہ)   بھی ہو کیونکہ مسلمانوں   کے مَحَلّے میں   اگر کوئی مجوسی   (آگ کا پجاری)   ہوٹل کھول لے تو ہر فرد کو یہ سمجھانا بہت دشوار ہو گا کہ اِس غیر مسلم سے گوشت یا گوشت والی کوئی سی بھی غذا لیکر مت کھاؤ کہ گناہ وحرام ہے۔ اَنسب طریقہ یہ ہے کہ اس   مَحَلَّے میں   مسلمان ہوٹل کھول لے اگر ایسا کر لیاتو اب سمجھانا آسان ہو جائے گا کہ وہاں   کے بجائے یہاں   سے کھاؤ۔ چنانچہ،  

تبلیغ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ نے بڑی شدت سے محسوس کیا کہ میڈیا کی اس جنگ میں   جدید آلات و ذرائع کا استعمال کئے بغیر طاغوتی طاقتوں   کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں  ،  آج شاید ہی کوئی گھر T.V. سے خالی ہو اور ہر باشُعُور مسلمان یہ جانتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی تباہی میں   T.V.کا بہت اہم کردار ہے۔ مُبَلِّغینِ دعوتِ اسلامی نے T.V. کی تباہ کاریوں   کے خلاف اچھی خاصی مُہم چلائی ۔چونکہ ہزار میں   سے تقریباً نو سو ننانوے   (999)   افراد T.V. کے رسیا ہو چکے ہیں   اور غالب اکثریت دنیا و آخرت کی بھلائی بُرائی کی پرواہ کئے بغیر T.V. دیکھنے میں   مشغول ہے ۔T.V. بینی میں   ان کی دیوانگی کی حد تک دلچسپی کی وجہ سے شیطان ان کے کردار کے ساتھ ساتھ اسلامی اَقدار و شعار پر بھی یلغار کر رہا ہے۔ اسلام ہی کا لبادہ اوڑھ کر بعض لوگ اسلام کوماڈَرن انداز میں   پیش کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں  ،  اسلام کی حقیقی روح مسلمانوں   کے دلوں   سے نکالی جا رہی ہے۔ اب اگر ہم مساجد وغیرہ میں   T.V.کی تباہ کاریاں   بیان کرتے بھی ہیں   تو اوّل تو بمشکل 5فیصد مسلمان نَماز پڑھتے ہوں   گے ان میں   بھی اِکّادُکّا ہی مذہبی بیان سننے میں   دلچسپی لیتا ہے ،  نیز اسلامی بہنوں   کو کون بیان سنائے ؟  اگر لٹریچر چھاپتے ہیں   تو دینی مطالعہ کرنے والوں   کی تعداد مایوس کُن حد تک کم ہے! ان نا مُساعِدحالات میں   اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ مسلمانوں   کی اصلاح کا دائرہ کار اگر صِرف مساجِد اور اجتماعات وغیرہ کی حد تک رکھتے ہیں   تو اُمّت کی غالِب اکثریَّت تک ہمارا درد بھرا پیغام پہنچ ہی نہیں   پاتا اور طاغوتی طاقتیں   یکطرفہ طور پر اپنے مختلف چینلز کے ذریعے مسلمانوں   کو گمراہ کرتی رہیں   گی۔ غالب گمان یہی ہے کہ مسلمانوں   کے گھروں   سے T.V. نکلوانا ممکن نہیں   بس ایک ہی صورت نظر آئی اور وہ یہ کہ جس طرح دریا میں   طُغیانی آتی ہے تو اُس کا رُخ کھیتوں   وغیرہ کی طرف موڑ دیا جاتا ہے تا کہ کھیت بھی سیراب ہوں   اور آبادیوں   کو بھی ہلاکت سے بچایا جا سکے عین اِسی طرح T.V.ہی کے ذَرِیعے مسلمانوں  کے گھروں   میں   داخِل ہو کر ان کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا جائے۔ انہیں   گناہوں   اور گمراہیوں   کے سیلاب سے بچایا جائے۔ چُنانچِہ جب اس شعبے کے متعلق معلومات حاصل کی گئیں   جن سے معلوم ہوا کہ اپنا

Index