امیر اہلسنت کی دینی خدمات

٭…  شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اور المدینۃُ العلمیہ کی کتب و رسائل ہی پیش کریں  ۔

٭VCDصرف ان علمائے کرام کو پیش کی جائے جو مووی وغیرہ کے قائل ہوں  ۔

٭…  ہر نئی کتاب؍VCDوغیرہ  علما کی خدمت میں   پیش کریں  ۔

٭…  جید علما و مدرسین درس نظامی کو علمیہ کی شائع شدہ عربی کتب پیش کریں   اور یہ بھی بتائیں   کہ اِنْ شَآءَاللہ  عَزَّ  وَجَلَّ  کچھ ہی عرصہ میں   تمام درسی کتب علمائے دعوتِ اسلامی شائع کرنے کااراہ رکھتے ہیں  ۔

٭… جمعہ کا بیان کرنے والے آئمہ و خطبا کو شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے تخریج شدہ نئے نئے موضوعات سے مزین رسائل پیش کر کے بیانِ جمعہ کی ترغیب دلائیں  ۔ کامیابی ہو گی۔ اِنْ شَآءَاللہ  عَزَّ  وَجَلَّ  

اللہ  کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں   میں

اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو !

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

٭٭٭٭

  (15)   مجلس مزاراتِ اولیاء

دورِ جدید میں   نوجوان نسل ایسے لوگوں   کی تلاش میں   سرگرداں   نظر آتی ہے جنہیں   وہ دنیا میں   کامیابی کے لئے اپنا آئیڈیل بنا سکے۔ مگر افسوس صد افسوس! اسلامی تعلیمات سے دوری کی بنا پر وہ یہ بات بھول چکی ہے کہ دنیاوی زندگی فانی ہے۔ لہٰذا اُخروی زندگی میں   نجات پانے اور بارگاہِ خداوندی میں   سرخرو ہونے کے لئے بے حد ضروری ہے کہ ہم اسی دنیا میں   ایسے لوگ تلاش کریں   جو سیرت و کردار کے اعلیٰ نمونے ہوں   اور ہم بجا طور پر انہیں   آئیڈیل بنا کر فخر محسوس کریں  ۔ کیونکہ کوئی انسان اس وقت تک اپنی سیرت کو صحیح اسلامی خطوط پر تعمیر نہیں   کر سکتا جب تک کہ اس کے سامنے سیرت و کردار کے اعلیٰ نمونے موجود نہ ہوں  ۔

اس میں   کوئی شک نہیں   کہ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی حیاتِ طیبہ سے بڑھ کر کوئی دوسرا انسان آئیڈیل بن سکے کیونکہ ان کا اصل کام ہی تعمیرِ سیرت تھا۔ جیسا کہ   (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ   ([1]کا فرمانِ الٰہی ہر مومن و متقی کے لئے نہ صرف مشعلِ راہ بلکہ مقصدِ حیات ہے اور یہ بات بھی سب جانتے ہیں   کہ شہنشاہِ مدینہ،  قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا طریقِ

 تربیت نظامِ صحبت تھا،  جس نے قربت و صحبت ِ نبوت سے جس قدر زیادہ فیض حاصل کیا اسی قدر کامل و اکمل ٹھہرا اور بارگاہِ خداوندی میں   مقبول و معزز سمجھا گیا۔

تاجدارِ رِسالت،  شہنشاہِ نَبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد امت کی تربیت کا یہی فریضہ بارگاہِ نبوت کے براہِ راست تربیت یافتہ ہونے کا شرف رکھنے والے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے سنبھال لیا۔ نیکی کی دعوت و تربیت کا یہ سلسلہ چونکہ دائمی و ابدی تھا اور اسے قیامت تک جاری رہنا تھا اس لئے یہ کسی نہ کسی شکل و صورت میں   جاری و ساری رہا۔

صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے بعد بھی ہر دور میں   ایسے علمائے حق اور صاحبِ دل بزرگ سامنے آتے رہے جنہوں   نے اسلامی تعلیمات کے نور سے نہ صرف لوگوں   کو منور کیا بلکہ اپنے عمل سے دین حق کی صحیح تفسیر و تشریح بھی کی۔ اسلامی تاریخ کا کوئی دور بھی ایسے نفوس قدسیہ کی درخشاں   مثالوں   سے خالی نہیں  ۔

ہم ان نفوس قدسیہ کو اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کہتے ہیں   اور ان کی شان بھی کتنی نرالی ہے!! سلطنتیں   مٹ گئیں   حکومتیں   وجود میں   آتی اور ختم



[1] ۔   ترجمۂ کنز الایمان: بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔ (پ۲۱،  الاحزاب:۲۱)

Index