امیر اہلسنت کی دینی خدمات

میں   بغلیں   جھانک کر رہ جاتا۔ روز روز کی پریشانی سے تنگ آکر ایک دن میں   نے اپنی ماں   سے پوچھا:  ’’ ماں  ! مجھے بتاؤ کہ اسلام کیا ہے ؟  مجھ سے کالج میں   طلبہ اس کے بارے میں   پوچھتے ہیں  ۔ ‘‘  تو میری ماں   نے جواب دیا:  ’’  مجھے تو خود معلوم نہیں   کہ اسلام کیا ہے۔ ‘‘  جب میری ماں   مجھے اسلام کے بارے میں   کچھ نہ بتا سکی تو میں   نے سوچا کہ  ’’ جس مذہب کے بارے میں   نہ میں   کچھ جانتا ہوں   اور نہ ہی میری ماں   تو میں   اسے کیوں   اختیا رکروں  ،  چنانچہ میں   نے اپنے دوستوں   کا مذہب اختیا ر کر لیا۔ ‘‘ پھر وہ نوجوان مجھ سے کہنے لگا:  ’’ اب آپ ہی بتائیں   کہ قصوروار کون ؟  ہم یا وہ مسلمان جن کو اسلام کے بارے میں   علم تھا لیکن انہوں   نے اسے ہم تک نہیں   پہنچایا؟  ‘‘

اِن سب کی جہالت کا ذمہ دار کون ؟

پیارے اسلامی بھائیو! ذرا سوچئے کہ اب وہاں   اور اس قسم کے دیگر علاقوں   کے لوگوں   کا ایمان کیسے بچایا جائے؟  ان سب حقائق کے باوجود ہم ابھی تک خوابِ غفلت میں   کیوں   ہیں  ؟  گھریلو آسایِشیں   چھوڑ کر چند دن کے لئے راہِ خدا میں   سفر کے لئے ہمارا نفس کیوں   تیار نہیں   ہوتا؟  دنیا کی مادی دولت کمانے کے لئے اپنے گھر والوں   سے برسہا برس کے لئے سینکڑوں   میل دور جانے کے لئے تو فوراً تیار ہو جاتے ہیں  ۔ کیا مسلمانوں   کی خستہ حالی،  مسجد وں   کی ویرانی،  سینما گھروں   کی آبادی،  فیشن کی یلغار،  مغربی تہذیب کی طومار،  گھر گھر ٹی وی کیبل سسٹم،  انٹرنیٹ،  وی سی ڈی   (VCD اور ڈی وی ڈی   (DVD کے ساتھ ساتھ قدم قدم پر نافرمانیوں   کی بھرمار،  ہائے مسلمان کا بگڑا ہوا کردار،  … یہ سب کچھ ہمیں   پکار پکار کر دعوتِ فکر نہیں  دے رہا ہے کہ  ’’ ہمیں   ساری دنیا کے لوگوں   کی اصلاح کی کوشش کے لئے مدنی قافلوں   کا ضرور بالضرور مسافر بننا چاہئے۔ ‘‘

آج ہمیں   زندگی میں   یکمشت 12 ماہ ہر 12ماہ میں   30دن اور عمر بھر ہر ماہ 3دن کیلئے راہِ خدا میں   سفر کرنا بے حدمشکل محسوس ہوتا ہے۔سوچئے تو سہی! اگر ہم میں   سے ہر ایک اپنی مجبوریوں   میں   پھنس کر رہ گیا تو آخر کون اِن مدنی قافلوں   میں   سفر کرے گا؟ کون ساری دنیا کے لوگوں   تک نیکی کی دعوت پہنچائے گا ؟  

شہنشاہِ مدینہ،  قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیاری پیاری اُمت کی خیرخواہی کون کرے گا ؟ کون اغیار کی وضع قطع پراِترانے والے مسلمانوں   کو سنتوں   کے سانچے میں   ڈھلنے کا ذہن دے گا؟  کون انہیں   یہ مدنی مقصد اپنانے کی ترغیب دے گا کہ  ’’ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں   کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ اِنْ شَآءَاللہ  عَزَّ  وَجَلَّ    ‘‘

یاد رکھئے! آج لوگوں   کی نگاہیں   دعوتِ اسلامی کے مدنی قافلوں   کی منتظر ہیں  ۔ ہر مسجد،  ہر گاؤں  ،  ہر شہر،  ہر ڈویژن اور ہر کابینہ سے یہ صدا سنائی دے رہی ہے:  ’’ مدنی قافلوں   کی اَشد ضرورت ہے ‘‘  کیونکہ مسلمانوں   کی اصلاح،  مسجدوں  کی آبادکاری، ساری دنیامیں   سنتوں   کی دھوم مچانے،  پوری دنیا میں   نیکی کی دعوت عام کرنے اورہر اسلامی بھائی کی مدنی تربیت کا بہترین ذریعہ مدنی قافلے ہیں  ۔

شیخ طریقت کے عطا کردہ چند مدنی پھول:

شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ وقتاً فوقتاً مدنی قافلوں   کی ترغیب پر مشتمل بے شمار مدنی پھول عطا فرماتے رہتے ہیں  ۔

چند مدنی پھول پیشِ خدمت ہیں  :

٭دعوت اسلامی کی بقا مدنی قافلوں   میں   ہے۔

٭مدنی قافلے دعوتِ اسلامی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں  ۔

٭… مجھے مدنی قافلوں   میں   سفر کرنے والوں   سے پیارہے۔

٭مدنی قافلے میں   سفرکے بغیرکوئی بھی دعوتِ اسلامی والامیرا پسندیدہ نہیں   بن سکتا۔

٭… ہماری منزل مدنی قافلوں   کے ذریعے پوری دنیا میں   سنتوں   کی بہاریں   عام کرنا ہے۔

٭… مجھے ایسے ذمہ داران چاہئیں   جو مدنی قافلوں   میں   سفر کرنے والے ہوں  ۔

 

Index