امیر اہلسنت کی دینی خدمات

حرم پر اکٹھے ہوتے ہیں   جن کی وحدت و یگانگت کا یہ انداز دیکھ کر پوری دنیا انگشتِ بدنداں   ہوتی ہے۔ یہ لمحہ عشاق کے لیے کسی طور نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں   ہوتا کیونکہ جب انہیں   ربّ عَزَّ وَجَلَّ  اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ سے پروانۂ حاضری ملتا ہے تو ان کا شوق دیدنی ہوتا ہے۔

شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے حج پر جانے والے اسلامی بھائیوں   اور اسلامی بہنوں   کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی اور انہیں   بارگاہِ خداوندی اور بارگاہِ مصطفوی کے آداب سکھانے کے لئے رَفِیقُ الْحَرَمَین نامی ایک شہرۂ آفاق کتاب تحریر فرمائی اور مکہ و مدینہ کی فضاؤں   میں   اپنی سانسوں   کو معطر کرنے کے لیے جانے والوں   کو آداب اور دیگر ضروری مسائل و غیرہ سے آگاہ کرنے کے لیے  ’’ مجلس حج وعمرہ ‘‘  بنائی۔ چنانچہ ہر سال حج کے مَوسِمِ بہار میں   حاجی کیمپوں   میں    ’’ مجلس حج وعمرہ ‘‘    (دعوتِ اسلامی)   کے زیرِ اہتمام مُبَلِّغینِ دعوتِ اسلامی حاجیوں   کی تربيت کرتے ہیں  ۔ حج وزیارتِ مدینۂ منورہ زَادَھَا اللّٰہُ شَرْفًا وَّ تَعْظِیْمًا میں   راہنمائی کے ليے مدینے کے مسافروں   کو حج کی کتابیں   مثلاً رَفِیقُ الْحَرَمَین بھی مفت پیش کی جاتی ہیں  ۔

امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا اندازِ تربیت:

پیارے حاجِیو! حج کے لئے جس طر ح سرمایۂ ظاہِر ی کی ضَرورت ہے اُسی طرح سرمایۂ باطنی کی بھی سَخْت ضَرورت ہے اور وہ سرمایہ سرمایۂ عِشق ومحَبَّت ہے اور ظاہِر ہے کہ یہ اَہلِ محَبَّت سے ملتا ہے۔ چُنانچِہ سرکارِ بغداد،  حضورِ غوثِ پاک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں   ایک شخص حاضِر ہوا،  آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حاضِرین سے فرمایا:  ’’ یہ ابھی ابھی بیتُ المُقَدَّس سے ایک قدم میں   میرے پاس آئے ہیں   تاکہ مجھ سے آدابِ عِشْق سیکھیں  ۔ ‘‘    ([1]

کسی عاشِق سے نسبت قائم کرلو...!

سُبْحَانَ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ  ! ایک باکرامت وَلی بھی سرمایۂ عِشْق کے حُصُول کی خاطر اپنے سے بڑے وَلی کی بارگاہ میں   حاضِری دیتا ہے پھر ہم تو کس شُمار وقِطار میں   ہیں  ۔ لہٰذا ہمیں   بھی چاہیے کہ ہم بھی کسی عاشِقِ رسول سے نِسبت قائم کر کے اُس سے آدابِ عِشْق سیکھیں   اور پھر سفرِ مدینہ اِختِیار کریں  ۔

پہلے ہم سیکھیں   قرینہ

پھر ملے مرشد سے سینہ

چل پڑے اپنا سفینہ

اور پہنچ جائیں   مدینہ

اپنے نام کے ساتھ  ’’ حاجی ‘‘  کہنا کیسا ؟

محترم حاجیو! یاد رکھیے! ہر عبادت کی قَبولِیَّت کے لئے اِخْلاص شَرْط ہے۔ جتنا اِخْلاص زِیادہ ہوتا ہے اُتنا ہی اَجْر وثواب بھی زیادہ ملتا ہے۔ آہ! اب علمِ دین اور اَچھی صُحبت سے دُوری کی بِنا پر ہماری اَکثر عبادات رِیاکاری کی نذر ہو کر برباد ہو جاتی ہیں   جس طرح اب ہمارے ہر کام میں   نُمود و نُمائش کا عمل دَخل ضَروری سمجھا جانے لگا ہے اِسی طرح اب حج جیسی عظیم سَعادت بھی دِکھاوے کی بھینٹ چڑھتی جا رہی ہے،  مَثَلاً ہمارے بے شُمار بھائی حج ادا کرنے کے بعد اپنے آپ کو اپنے مُنہ سے حاجی کہتے اور اپنے قلم سے اپنے نام کے آگے حاجی لکھتے ہیں  ۔ آپ شاید چونک پڑے ہوں   گے کہ اِس میں   آخِر کیا حَرَج ہے؟  ہاں  ! واقعی اِس صورت میں   کوئی حَرَج بھی نہیں   کہ لوگ آپ کو اپنی مرضی سے حاجی صاحب کہہ کر پکاریں   مگر پیارے حاجیو! اپنی زَبان سے اپنے آپ کو حاجی کہنا اپنی عبادت کا خود اِعلان کرنا نہیں   تو اور کیا ہے؟  اِس کو اِس مِثال سے سمجھیں  :

لطیفہ:

ٹرین چُھک چُھک کرتی اپنی منزِل کی طرف بڑھی چلی جارہی تھی دو شخص قریب قریب بیٹھے ہوئے تھے ایک نے سلسلہ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے



[1]   اخبار الاخیار،  ص ۱۴ ملخصاً

Index