امیر اہلسنت کی دینی خدمات

٭…  عشر کے لیے بار دانہ   (خالی بوریاں   اور توڑے)   وغیرہ کی ترکیب پہلے ہی سے بنا کر اس پر  ’’ عُشر برائے دعوتِ اسلامی ‘‘  لکھوا دیا جاتا ہے۔ پھر یہ باردانہ ان کاشتکار اسلامی بھائیوں   میں   تقسیم کر دیا جاتا ہے جن سے عشروصول کرنا ہو۔

٭…   فصْل اور پھلوں   وغیرہ کی کٹائی کے موقع پر ہاتھوں   ہاتھ عشر اکٹھا کرنے کی ترکیب بنائی جاتی ہے کیونکہ یہ مُشاہدہ ہے کہ جب فصل اُٹھا لی جاتی ہے تو عشر حاصل کرنا دُشوار ہوتا ہے۔

٭…  عشر میں   حاصل ہونے والی اجناس کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے احسن انداز میں   محفوظ کرنا بھی مَجْلسِ عُشْر کی ذمہ داری ہے۔

٭…  فصل کی کٹائی مکمل ہونے کے 12 دِن بعد تک مَجْلسِ عُشْر اپنی کارکردگی نگران شہر مشاورت و مجلسِ مالیات کو پیش کر دیتی ہے۔

٭…  مجلس عشرکے ذمہ دار اپنی مشاورت کے نگران کے ذ ریعے یومِ تعطیل اعتکاف   (اطراف/گاؤں  )   کی ترکیب مضبوط بنانے کی کوشش کرتے ہیں   تاکہ اطراف میں   مدنی کام مضبوط ہو اور شہر کے اِسلامی بھائیوں   کو بھی عشر اکٹھا کرنے کا موقع ملے۔

اللہ  کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں   میں

اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو !

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

٭٭٭٭

شخصیات میں   مدنی کام کرنے کی اہمیت و افادیت

کسی بھی ملک یا قوم کے بااثر افراد و شخصیات اس ملک وقوم کے اندرونی وبیرونی معاملات میں   بہت حد تک دخیل   (یعنی دخل انداز)    ہوتی ہیں  ،  ان کے قول وفعل اور حکم وممانعت کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ چنانچہ کسی ملک کی اہم شخصیات کا کسی تنظیم یا ادارے سے وابستہ ہونے سے اس تنظیم یا ادارے کی قوت میں   جو اضافہ ہوتا ہے اس سے انکار ممکن نہیں  ۔

آئیے! چند ایسی شخصیات کے قبولِ اسلام کے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں   جن کے اسلام قبول کرنے کا اثر ان کی قوم پر بھی پڑا۔

فاروقِ اعظم کا قبولِ اسلام:

حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے اسلام لانے کے بعد تیسرے ہی دن حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی دولت اسلام سے مالا مال ہو گئے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے واقعات میں   بہت سی روایات ہیں  ۔

ایک روایت یہ ہے کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ایک دن غصہ میں   بھرے ہوئے ننگی تلوار لے کر اس ارادہ سے چلے کہ آج میں   اسی تلوار سے پیغمبرِ اسلام صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا   (معاذ اللہ  خاتمہ کر دوں   گا۔ اتفاق سے راستہ میں   حضرت نُعَیم بن عبد ﷲ قریشی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے ملاقات ہوگئی۔ یہ مسلمان ہوچکے تھے مگر حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو ان کے اسلام کی خبر نہیں   تھی۔ حضرت نُعَیم بن عبد ﷲ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے پوچھا: کیوں  ؟  اے عمر   (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ! اس دوپہر کی گرمی میں   ننگی تلوار لے کر کہاں   چلے؟  کہنے لگے: آج بانی اسلام   (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کا فیصلہ کرنے کے لئے گھر سے نکل پڑا ہوں  ۔ انہوں   نے کہا: پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری بہن فاطمہ بنت خطاب   (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہااور تمہارے بہنوئی سعید بن زید   (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ)   بھی تو مسلمان ہو گئے ہیں  ۔ یہ سن کر آپ بہن کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔گھر کے اندر چند مسلمان قرآن پڑھ رہے تھے جو سب حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی آواز سنتے ہی ڈر گئے اور قرآن کے اوراق چھوڑ کر ادھر ادھر چھپ گئے۔ بہن نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ چِلّا کر بولے کہ اے اپنی جان کی دشمن! کیا تو بھی مسلمان ہو گئی ہے ؟  پھر اپنے بہنوئی حضرت سعید بن زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ پر جھپٹے اور ان کی داڑھی پکڑ کر ان کو زمین پر پٹخ دیا اور سینے پر سوار ہو کر مارنے لگے۔ ان کی بہن حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا  اپنے شوہر کو بچانے کے لئے دوڑیں   تو


 

 

Index