امیر اہلسنت کی دینی خدمات

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یاد رکھئے کہ محاسبۂ نفس سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور روزِ قیامت بارگاہِ رَبُّ العزت میں   پیش ہونے کی لگن اس بادشاہِ حقیقی کی محبت سے حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ ان سب باتوں   کے حصول کے لئے شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے عطا کردہ مدنی انعامات پر عمل مُمِدّ و مُعَاوِن ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

مَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍؕ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ  (۵)  وَ مَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا یُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ  (۶)     (پ۲۰،  العنکبوت:۵، ۶) 

ترجمۂ کنز الایمان: جسے اللہ  سے ملنےکی امید ہو تو بیشک اللہ کی میعاد ضرورآنے والی ہے اور وہی سنتا جانتا ہے۔ اور جو اللہ کی راہ میں   کوشش کرے تو اپنے ہی بھلے کو کوشش کرتا ہے بیشک اللہ بے پرواہ ہے سارے جہان سے۔

یاد رکھئے نفس کا محاسبہ کرنا کوئی نئی بات نہیں   بلکہ یہ اسلاف سے ثابت ہے اور شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اسلاف کی اس سنت کو از سرِ نو زندہ کر کے شیطان و نفس کو شکستِ فاش دی ہے۔ چنانچہ،  

سیِّدُنا فاروقِ اعظم اور محاسبہ ٔ  نفس:

امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:  ’’ اپنا محاسبہ کیا کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور اپنی جانوں   کا وزن کئے جانے سے پہلے خود ہی ان کا وزن کر لو،  اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کے حضور پیش ہونے والے سب سے بڑے دن کے لئے خود کو آراستہ کر لو کہ جس دن تم پیش کئے جاؤ گے کچھ بھی مخفی نہ رہے گا،  بے شک اُن لوگوں   کا حساب آخرت میں   خفیف و آسان ہو گا جنہوں   نے دنیا ہی میں   اپنی جانوں   کا محاسبہ کیا۔ ‘‘    ([1]پیارے اسلامی بھائیو! امام اجل حضرت سیدنا شیخ ابو طالب مکی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں   کہ انہی لوگوں   کے نامۂ اعمال کے وزن روزِ قیامت وزنی ہوں   گے،  جنہوں   نے دنیا میں   اپنے نفوس کا وزن کیا ہو گا کیونکہ میزان کا حق یہ ہے کہ اس میں   سوائے حق کے کچھ نہ رکھا جائے جو یقیناً بھاری و ثقیل ہو گا۔   ([2]

مَدَنی اِنْعامات کی تربیت

شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ مدنی انعامات پر عمل کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتے ہیں  :  ’’ یقیناً وہ لوگ خوش نصیب ہیں   جو مرنے سے قبل موت کی تیاری کر لیتے ہیں  ۔ ‘‘  زندگی برف کی طرح پگھلتی جا رہی ہے،  موت اپنی تمام تر سختیوں   سمیت پیچھا کئے چلی آ رہی ہے۔ عنقریب ہمیں   مرنا،  اندھیری قبر میں   اترنا اور اپنی کرنی کا پھل بُھگتنا پڑیگا۔ یقیناً وہ لوگ خوش نصیب ہیں   جو مرنے سے قبل آخِرت کی تیاّری کر لیتے ہیں   ۔

موت سے غافل نہ ہو اے بے خبر!

تجھ کو جانا ہے یہاں   سب چھوڑ کر

مزید فرماتے ہیں   کہ  ’’ کاش! دیگر فرائض و سُنَن کی بجا آوَری کے ساتھ ساتھ تمام اسلامی بھائی او راسلامی بہنیں   ان مَدَنی انعامات کو بھی اپنی زندگی کا دستورُ العَمَل بنا لیں  ۔ ‘‘  

کچھ نیکیاں   کما لے جلد آخرت بنا لے

کوئی نہیں   بھروسہ اے بھائی زندگی کا

شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ مَدَنی انعامات پر عمل کرنے والوں   کو کچھ یوں   اپنی دعاؤں   سے نوازتے ہیں  :

تُو ولی اپنا  بنا لے اُس کو  ربّ لَمْ یَزَل

 ’’ مَدَنی اِنْعامات ‘‘  پر کرتا ہے جو کوئی عمل

 



[1]    الترمذی،  کتاب صفۃ القیامۃ،  الحدیث:۲۴۶۷،  ج۴،  ص۲۰۷

[2]    قوت القلوب،  ج۱،  ص ۱۳۷

Index