امیر اہلسنت کی دینی خدمات

وابستگان و پسماندگان کی دلداری کرنے کے لئے  مجلسِ ایصالِ ثواب اور مجلسِ لنگرِ رسائل ۔

٭…  آفات و بلیات میں   گھری پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دکھیاری اُمت کی خیر خواہی کے لئے مجلس خیر خواہی۔

  (1)   مجلسِ خُدَّامُ الْمَسَاجِد

مساجد جنہیں   بیت اللہ  بھی کہا جاتا ہے،  کو دینِ اسلام میں   بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ ہیں   اور مسلمان یہاں   انفرادی و اجتماعی طور پر اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کرتے ہیں  ۔ چنانچہ،  

مساجد کو آباد کرنے والوں   کی تعریف کرتے ہوئے اللہ  عَزَّ وَجَلَّ نے قرآنِ مجید میں   ارشاد فرمایا: اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ   (پ۱۰،  التوبۃ:۱۸) 

ترجمۂ کنز الایمان: اللہ  کی مسجدیں   وہی آباد کرتے ہیں   جو اللہ  اور قیامت پر ایمان لاتے اور نماز قائم رکھتے ہیں   اور زکوٰۃ دیتے ہیں   اور اللہ  کے سوا کسی سے نہیں   ڈرتے۔

مُفَسِّرِ شَہِیر،  حکیمُ الامَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان  ’’ تفسیرِ نعیمی ‘‘  میں   فرماتے ہیں  :  ’’ خیال رہے کہ مسجد آباد کرنے کی گیارہ صورتیں   ہیں  :   (۱)  مسجد تعمیر کرنا  (۲)   اس میں   اضافہ کرنا  (۳)   اسے وسیع کرنا  (۴)   اس کی مرمت کرنا   (۵)   اس میں   چٹایاں  ،  فرش وفروش بچھانا   (۶)   اس کی قلعی چونا کرنا   (۷)   اس میں   روشنی و زینت کرنا   (۸)   اس میں   نمازو تلاوت قرآن کرنا  (۹)   اس میں   دینی مدارس قائم کرنا   (۱۰)   وہاں   داخل ہونا،  وہاں   اکثر جانا،  آنا،  رہنا   (۱۱)   وہاں   اذان وتکبیر کہنا،  امامت کرنا۔ ‘‘    ([1]مزید فرماتے ہیں  :  ’’ مسجد بنانے یااسے آباد کرنے یاوہاں   باجماعت نماز اداکرنے کا شو ق صحیح مومن کی علامت ہے،  اِنْ شَآءَاللہ  عَزَّ  وَجَلَّ   ایسے لوگوں   کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔ ‘‘    ([2]

شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے مسلمانوں   کو اپنے عطا کردہ مدنی مقصد  ’’ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں   کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ ‘‘  اِنْ شَآءَاللہ  عَزَّ  وَجَلَّ  کی تکمیل کے لئے ہر وہ کام کیا جس سے وہ دوری ختم کرنا ممکن تھا جو گناہوں   کی کثرت کی وجہ سے بندے اور اس کے پروردگار عَزَّ وَجَلَّ   کے درمیان پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ نے اپنی اصلاح کی کوشش کے لئے جو مَدَنی انعامات کا گلدستہ پیش کیا اس میں   اچھی اچھی نیتوں   کے بعد سب سے پہلے جو مَدَنی انعام ذکر کیا وہ یہ ہے:  ’’ کیا آج آپ نے پانچوں   نَمازیں   مسجِد کی پہلی صف میں   تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ باجماعَت ادا فرمائیں  ؟  نِیز ہر بار کسی ایک کو اپنے ساتھ مسجِد لے جانے کی کوشش فرمائی؟  ‘‘  

شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے اس عطا کردہ مدنی انعام سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کرنے اور عبادت کی جگہوں   مثلاً مسجدوں   سے کس قدر محبت فرماتے ہیں  ۔ چنانچہ،  شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کے مذکورہ فرمان پر عمل کرتے ہوئے اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کے گھروں   کو آباد کرنے کے لیے مَجْلِس خُدَّامُ الْمَسَاجِد بنائی جس کا کام شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے اس خواب کی تکمیل ہے کہ اے کاش! ہماری مساجد آباد ہو جائیں  ،  ان کی رونقیں   پلٹ آئیں   اور خالق و مخلوق کے درمیان نفس و شیطان کی وجہ سے جو دوری پیدا ہو چکی ہے وہ قرب میں   بدل جائے۔ مجلس  ’’ خُدَّامُ الْمَسَاجِد ‘‘  پرانی مساجد آباد کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ نئی مساجد کی تعمیر کے لیے بھی ہر وقت کوشش کرتی رہتی ہے۔ چنانچِہ اس ضمن میں   مساجد کی تعمیرات وغیرہ کا سلسلہ ہر وَقْتْ کسی نہ کسی شکل میں   جاری رَہتا ہے۔

مجلس خدام المساجد کے مدنی پھول:

٭…   جن علاقوں   یا شہروں   میں   مساجد کی ضرورت ہوتی ہے وہاں   مجلسِ خدّامُ المساجد کے ذمہ داران اپنے نگران سے مشاورت اور دارالافتاء اہلسنّت سے شرعی رہنمائی کے ساتھ جگہ   (Plot)   کے حصول کی کوشش کرتے ہیں  ۔

 



[1]    تفسیر نعیمی،  ج۱۰، ص۲۰۱

[2]    تفسیر نعیمی،  ج۱۰، ص۲۰۴

Index