امیر اہلسنت کی دینی خدمات

اصلاح معاشرہ کے دو اہم ستون:

شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے دلِ پر درد میں   پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دُکھیاری امت کی اصلاح کا جذبہ ہر وقت آپ کو نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے تیار رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف آپ نے اپنی حیاتِ مبارکہ کو نیکی کی دعوت کی دُھومیں   مچانے کے لئے وقف کر رکھا ہے بلکہ آپ مختلف طبقات میں   بٹے ہوئے اسلامی معاشرے کے مختلف افراد تک نیکی کی دعوت پہنچانے کے لئے اصلاح معاشرہ کے دو اہم ستونوں   یعنی اجتماعی و انفرادی کوشش پر مصروفِ عمل نظر آتے ہیں  ۔

اجتماعی و انفرادی کوشش میں   فرق:

تبلیغ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت سنتوں   بھرے اجتماع میں   بیان ہو یا نیکی کی دعوت عام کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ وسلسلہ شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت کی اجتماعی کوششوں   کا نتیجہ ہے،  مگر بارہا دیکھا گیا ہے کہ کئی اسلامی بھائی جو برسہا برس سے اجتماع میں   شریک ہونے کی سعادت حاصل کرتے رہتے ہیں  ،  وہ دورانِ بیان دی جانے والی مختلف ترغیبات مثلاًپنج وقتہ نماز باجماعت پڑھنے،  رمضان کے روزے رکھنے،  سر پر عمامہ سجانے ، چہرے پر داڑھی رکھنے ،  سنت کے مطابق سفید لباس پہننے ،  مدنی انعامات پر عمل کرنے اور مدنی قافلے میں   سفروغیرہ پر لبیک کہتے ہوئے ان کی نیت بھی کرتے ہیں   مگر عملی قدم اٹھانے میں   ناکام رہتے ہیں  ۔ پس ایسے اسلامی بھائیوں   کی اصلاح کے لئے شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اِنْفِرَادی کوشش   ([1]  کا مدنی ذہن دیااور اِنْفِرَادی کوشش کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:  ’’ دعوتِ اسلامی کا 99.9 فی صد کام اِنْفِرَادی کوشش کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ‘‘  چنانچہ جب تبلیغ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے کسی مبلغ اسلامی بھائی نے اچھی اچھی نیتیں   کرنے کے باوجود عملی قدم اٹھانے میں   ناکام کسی اسلامی بھائی سے ملاقات کر کے اِنْفِرَادی کوشش کرتے ہوئے بِالتَّدْرِیج   (آہستہ آہستہ)   مذکورہ بالا امور کی ترغیب دی تو وہ ان کا عامل بنتا چلا گیا۔ گویا اِجْتِمَاعی کوشش کے ذریعہ لوہا گرم ہوا اور اِنْفِرَادی کوشش  کے ذریعے اس گرم لوہے پر چوٹ لگائی گئی۔

اِنْفِرَادی کوشش کی اہمیت:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِنْفِرَادی کوشش کوئی نئی شے نہیں   بلکہ یہ تو سرکارِ مدینہ،  قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنت سے ثابت ہے کہ بے شمار مواقع پر مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انفرادی کوشش کے ذریعے دوسروں   کی اصلاح فرمائی۔ چنانچہ،  

بدکاری کی اجازت مانگنے والے پر سرکار کی انفرادی کوشش:

صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان دربارِ مصطفےٰ میں   میٹھے میٹھے آقا،  مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دیدار کی دولت سے فیض یاب ہو رہے تھے کہ ایک خوبصورت نوجوان بارگاہِ ناز میں   حاضر ہوا کہ جس نے ابھی حال ہی میں   جوانی کی حدود میں   قدم رکھا تھا اور کچھ یوں   عرض کی:  ’’ یا رسولَ اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !مجھے بدکاری کی اجازت دیجئے۔ ‘‘  اُس کی اِس جراءت پر تمام صحابۂ کرام ششدر رہ گئے اور سب کی جبینیں   شکن آلود ہو گئیں  ۔ چنانچہ سب اسے بارگاہِ نبوت کے آداب کا لحاظ نہ رکھنے کی وجہ سے ڈانٹنے لگے تو حُسنِ اَخلاق کے پیکر،  مَحبوبِ رَبِّ اَکبر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے انہیں   اس نوجوان کو کچھ کہنے سے منع فرما دیا اور ارشاد فرمایا: اسے میرے قریب آنے دو۔ وہ نوجوان معاملہ کی نزاکت کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھا اور آپ نے اس نوجوان کو اپنے پاس بٹھا کر بڑی نرمی اور محبت و شفقت سے پوچھا: اے نوجوان! ذرا یہ تو بتا کہ اگر کوئی شخص تیری ماں   کے ساتھ ایسا کرے تو کیا تجھے اچھا لگے گا؟  نوجوان   (جوشِ غیرت سے)   کچھ یوں   عرض گزار ہوا: نہیں   نہیں  ! اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! یا رسولَ اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !میری جان آپ پر قربان میں   ہر گز یہ پسند نہیں   کروں   گا۔ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اگر تجھے یہ پسند نہیں   کہ کوئی تیری ماں   کے ساتھ ایسا کرے تو دوسرے بھی یہ پسند نہیں   کرتے کہ کوئی ان کی ماں   سے ایسا کرے۔ پھر آپ نے باری باری بیٹی،  بہن،  پھوپھی اور خالہ کے متعلق یہی سوال اس نوجوان سے پوچھا تو ہر بار اس نے نفی میں   ہی جواب دیا اور سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی اسے ایک ہی بات



[1]    چند (مثلاً ایک،  دو یا تین) اسلامی بھائیوں کو الگ سے نیکی کی دعوت دینے (یعنی انہیں سمجھانے) کو انفرادی کوشش کہتے ہیں۔

Index