امیر اہلسنت کی دینی خدمات

باغ منٹوں   میں   تاراج:

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 422 صَفحات پر مشتمل کتاب،  ’’  عجائب القران مع غرائب القران  ‘‘  صَفْحَہ 206 پر ہے: حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کے تھوڑے دنوں   بعد کا واقعہ ہے کہ یمن میں   صَنْعَا  شہر سے دو کوس کی دوری پر ایک باغ تھا جس کا نام ضردان تھا۔ اس باغ کا مالک بہت ہی نیک نفس اور سخی آدمی تھا۔ اُس کا دستور یہ تھا کہ پھلوں   کو توڑنے کے وقت وہ فقیروں   اور مسکینوں   کو بلاتا تھا اور اعلان کردیتا تھا کہ جو پھل ہوا سے گر پڑیں   یا جو ہماری جھولی سے الگ جا کر گریں   وہ سب تم لوگ لے لیا کرو۔ اس طرح اس باغ کا بہت ساپھل فقرا ومساکین کو مل جایا کرتا تھا۔ باغ کا مالک مر گیا تو اُس کے تینوں   بیٹے اس باغ کے مالک ہوئے مگر یہ تینوں   بہت بخیل ہوئے۔ ان لوگوں   نے آپس میں   طے کر لیا کہ اگر فقیروں   اور مسکینوں   کو ہم لوگ بلائیں   گے تو بہت سے پھل یہ لوگ لے جائیں   گے اور ہم لوگوں   کے اہل وعیال کی روزی میں   تنگی ہو جائے گی۔ چنانچہ ان تینوں   بھائیوں   نے قسم کھا کر یہ طے کر لیا کہ سورج نکلنے سے قبل ہی چل کر ہم لوگ باغ کا پھل توڑ لیں   تاکہ فقرا و مساکین کو خبر ہی نہ ہو۔ چنانچہ،  

ان لوگوں   کی بدنیتی کی نحوست نے یہ اثر بد دکھایا کہ ناگہاں   رات ہی میں   اللہ  تعالیٰ نے باغ میں   ایک آگ بھیج دی۔ جس نے پورے باغ کو جلا کر خاک سیاہ کر ڈالا اور ان لوگوں   کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی۔ یہ لوگ اپنے منصوبہ کے مطابق رات کے آخری حصے میں   نہایت خاموشی کے ساتھ پھل توڑنے کے لئے روانہ ہو گئے اور راستہ میں   چپکے چپکے باتیں   کرتے تھے تاکہ فقیروں   اور مسکینوں   کو خبر نہ مل جائے۔ لیکن یہ لوگ جب باغ کے پاس پہنچے تو وہاں   جلے ہوئے درختوں   کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ چنانچہ ایک بول پڑا کہ ہم لوگ راستہ بھول کر کسی اور جگہ چلے آئے ہیں   مگر ان میں   سے جو بہ نسبت دوسرے بھائیوں   کے کچھ نیک نفس تھا۔ اُس نے کہا کہ ہم راستہ نہیں   بھولے ہیں   بلکہ اللہ  تعالیٰ نے ہم لوگوں   کو پھلوں   سے محروم کر دیا ہے لہٰذا تم لوگ خدا کی تسبیح پڑھو تو ان سبھوں   نے یہ پڑھنا شروع کردیا کہسُبْحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ  (۲۹)  یعنی ہمارے ربّ کے لئے پاکی ہے ہم لوگ یقیناً ظالم ہیں   کہ ہم نے فقرا و مساکین کا حق مار لیا پھر وہ تینوں   بھائی ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور آخر میں   یہ کہنے لگے کہ

عَسٰى رَبُّنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْهَاۤ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ  (۳۲)    (پ۲۹،  القلم:۳۲) 

ترجمۂ کنز الایمان: امید ہے کہ ہمیں   ہمارا رب اس سے بہتر بدل دے ہم اپنے رب کی طرف رغبت لاتے ہیں  ۔

حضرت عبد اللہ  بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں   کہ ان لوگوں   نے سچے دل سے توبہ کر لی تو اللہ  تعالیٰ نے ان لوگوں   کی توبہ قبول فرما لی اور پھر ان لوگوں   کو اس کے بدلے ایک دوسرا باغ عطا فرما دیا جس میں   بہت زیادہ اور بہت بڑے بڑے پھل آنے لگے۔ اس باغ کا نام حیوان تھا اور اس میں   ایک ایک انگور اتنا بڑا بڑا ہوتا تھا کہ اُس کا ایک خوشہ ایک خچر کا بوجھ ہو جایا کرتا تھا۔ ابو خالد یمانی کا بیان ہے کہ میں   اُس باغ میں   گیا تھا تو میں   نے دیکھا کہ اُس باغ میں   انگوروں   کے خوشے حبشی آدمی کے قد کے برابر بڑے تھے۔   ([1]

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا کہ زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار میں   غربا و مساکین کا حق ہے جسے ادا کرنے کا ہمارے ربّ نے ہمیں   قران کریم میں   کچھ اس طرح حکم ارشاد فرمایا ہے:

وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍؕ-كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ ﳲ

ترجمۂ کنز الایمان: اور وہی ہے جس نے پیدا کئے باغ کچھ زمین پر چَھئے   (چھائے)  ہوئے اور کچھ بے چَھئے   (بے پھیلے)   اور کھجور اور کھیتی جس میں   رنگ رنگ کے کھانے اور زیتون اور انار کسی بات میں   ملتے اور کسی میں   الگ کھاؤ اس کا پھل جب پھل لائے اور اس کا حق دو جس دن کٹے۔    (پ۸، الانعام:۱۴۱) 

فصل کے حق سے مراد :

معلوم ہوا کہ فصل کی کٹائی اور پھلوں   کو توڑنے کے بعد راہِ خدا میں   کچھ دینا درحقیقت اس کا حق ادا کرنا ہے جسے اصطلاحِ شرح میں   عشر کہتے ہیں  ،  عشر



[1]    تفسیر صاوی، ج۶ ، پ۲۹ القلم:۳۲ ، ص۲۲۱۶

Index