امیر اہلسنت کی دینی خدمات

قراٰن سیکھا اور دوسروں   کو سکھایا۔  ([1]حضرتِ سیِّدُناابو عبد الرحمن سُلَمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ قراٰنِ پاک پڑھایا کرتے اور فرماتے: اِسی حدیثِ مبارک نے مجھے یہاں   بٹھا رکھا ہے۔  ([2]

اللہ  مجھے حافظ قراٰن بنا دے

قراٰن کے اَحکام پہ بھی مجھ کو چلا دے

قراٰن شَفاعت کر کے جنَّت میں   لے جائے گا:

حضرتِ سیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے رِوایت ہے کہ شہنشاہِ مدینہ،  قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ معظَّم ہے: جس شخص نے قراٰنِ پاک سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قراٰنِ پاک میں  ہے اس پر عمل کیا،  قراٰن شریف اس کی شفاعت کریگااور جنّت میں   لے جائے گا۔  ([3]

الہٰی خوب دیدے شوق قراٰں   کی تلاو ت کا

شَرَف دے گنبدِ خضرا کے سائے میں   شہادت کا

ایک آیت سکھانے والے کیلیے قیامت تک ثواب

ذُوالنُّورین،  جامع القراٰن حضرتِ سیِّدُنا عثمان ابنِ عفّان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے رِوایت ہے کہ تا جدارِ مدینۂ منوّرہ،  سلطانِ مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا: جس نے قراٰنِ مُبین کی ایک آیت سکھائی اس کے لیے سیکھنے والے سے دُگنا ثواب ہے۔  ([4]ایک اور حدیثِ پاک میں   حضرتِ سیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے رِوایت ہے کہ تاجدارِ رِسالت،  شہنشاہِ نَبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں  : جس نے قراٰنِ عظیم کی ایک آیت سکھائی جب تک اس آیت کی تلاوت ہوتی رہے گی اس کے لیے ثواب جاری رہے گا۔   ([5]

تلاوت کا جذبہ عطا کر الہٰی

مُعاف فرما میری خطا ہَر الہٰی

ماں   کے پیٹ میں   15پارے حِفْظ کر لیے:

ملفوظاتِ اعلٰی حضرت سے ایک مفید عرض اور ایمان افروز ارشاد ملاحَظہ فرمایئے:

عرض: حضور! ’’  تَقْرِیْب بِسْمِ اللہ    ‘‘  کی کوئی عمر شرعاً مقرر ہے؟

ارشاد: شرعاً کچھ مُقرَّر نہیں  ،  ہاں   مشائخِ کرام   (رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کے یہاں   چار برس چار مہینے چار دن مقرَّر ہیں  ۔ حضرت خواجہ قطبُ الحقِّ وَالدّین بختیار کاکی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کی عمر جس دن چار برس چار مہینے چار دن کی ہوئی   (تو)    ’’ تَقْرِیْب بِسْمِ اللہ    ‘‘  مقرَّر ہوئی،  لوگ بلائے گئے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بھی تشریف فرما ہوئے۔ بِسْمِ اللہ   پڑھانا چاہی مگر اِلہام ہوا کہ ٹھہرو! حمید الدین ناگوری آتا ہے وہ پڑھائے گا۔ اِدھر ناگور میں   قاضی حمید الدین صاحب رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اِلہام ہو ا کہ جلد جا میرے ایک بندے کو بِسْمِ اللہ   پڑھا۔

قاضی صاحِب فوراً تشریف لائے اور فرمایا: صاحبزادے پڑھئے! بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ آپ نے پڑھا: اَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ اور شروع سے لے کر پَندرَہ پارے حِفظ سنا دیئے۔ حضرت قاضی صاحِب اور خواجہ صاحِب نے فرمایا:  ’’ صاحبزادے آگے پڑھئے ! فرمایا: میں   نے اپنی ماں   کے شکم   (پیٹ)   میں   اِتنے ہی سُنے تھے اور اِسی قَدَر اُن   (یعنی امّی جان)   کو یاد تھے،  وہ مجھے بھی



[1]    بخاری،  کتاب فضائل القرآن،  باب خیرکم من تعلم الخ،  الحدیث: ۵۰۲۷،  ج۳،  ص۴۱۰

[2]    فیضُ القَدیر،  تحتَ الحدیث:۳۹۸۳،  ج۳،  ص۶۱۸

[3]    تاريخ مدينة دمشق،  ج۴۱،  ص۳

[4]    جمعُ الجوامع،  الحدیث:۲۲۴۵۵،  ج۷،  ص۲۰۹

[5]    المرجع السابق،  الحدیث:۲۲۴۵۶

Index