امیر اہلسنت کی دینی خدمات

بہتر وہ ہے جو لوگوں   کو نفع دے وَشَرُّ النَّاسِ مَنْ یَّضُرُّ النَّاسَ اور لوگوں   میں   بدتر وہ ہے جو دوسروں   کو تکلیف دے۔   ([1]

اپنے فائدے کی بات تو ہر کوئی کرتا ہے مگر دوسروں   کے فائدے کی تدبیر کوئی کوئی ہی کرتا ہے۔ شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی ذات کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ آپ کا عطا کردہ مدنی مقصد  ’’ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں   کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔اِنْ شَآءَاللہ  عَزَّ  وَجَلَّ  ‘‘  مذکورہ حدیثِ پاک کی عملی تصویر ہے۔ اس لئے کہ آپ نے دعوتِ اسلامی کی شکل میں   ہمیں   جو پاکیزہ و معطر معطر مَدَنی ماحول عطا فرمایا ہے اس میں   اپنی اصلاح کے مواقع میسر آنے کے ساتھ ساتھ دوسروں   کی اصلاح کا سبب بننے کا بھی اکثر موقع ملتا رہتا ہے۔ کیونکہ تبلیغ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کے تحت شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ہر اسلامی بھائی کو اپنی اصلاح کی کوشش کے لیے مَدَنی انعامات پر عمل کرنے اور دوسروں   کی اصلاح کی کوشش کے لیے مدنی قافلوں   میں   سفر کرنے کا مدنی ذہن دیا۔

مدنی قافلہ کیا ہے؟

مدنی قافلے سے مراد راہِ خدا میں   علمِ دین سیکھنے سکھانے اور نیکی کی دعوت عام کرنے کے لیے سفر کرنا ہے۔ چنانچہ،  

اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کا پارہ 11سورۂ  توبہ آیت نمبر 122میں   فرمانِ ہدایت نشان ہے:

 وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةًؕ-فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠  (۱۲۲)    (پ۱۱،  توبہ:۱۲۲) 

ترجمۂ کنز الایمان:  اور مسلمانوں   سے یہ تو ہو نہیں   سکتا کہ سب کے سب نکلیں   تو کیوں   نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں   سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں   اور واپس آ کر اپنی قوم کو ڈر سنائیں   اس امید پر کہ وہ بچیں  ۔

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی   ’’ خزائن العرفان ‘‘  میں   اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں   فرماتے ہیں  : حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ قبائلِ عرب میں   سے ہر ہر قبیلہ سے جماعتیں   سیدِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حضور میں   حاضر ہوتیں   اور وہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے دین کے مسائل سیکھتے اور تَفَقُّہ حاصل کرتے اور اپنے لئے احکام دریافت کرتے اور اپنی قوم کے لئے،  حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انہیں   اللہ  و رسول کی فرماں   برداری کا حکم دیتے اور نماز زکوٰۃ وغیرہ کی تعلیم کے لئے انہیں   ان کی قوم پر مامور فرماتے،  جب وہ لوگ اپنی قوم میں   پہنچتے تو اعلان کر دیتے کہ جو اسلام لائے وہ ہم میں   سے ہے اور لوگوں   کو خدا عَزَّ وَجَلَّ کا خوف دلاتے اور دین کی مخالفت سے ڈراتے یہاں   تک کہ لوگ اپنے والدین کو چھوڑ دیتے اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انہیں   دین کے تمام ضروری علوم تعلیم فرما دیتے۔   (خازن)   یہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا معجِزۂ عظیمہ ہے کہ بالکل بے پڑھے لوگوں   کو بہت تھوڑی دیر میں   دین کے احکام کا عالِم اور قوم کا ہادی بنا دیتے تھے۔

مزید فرماتے ہیں   کہ اس آیت سے چند مسائل معلوم ہوئے:

٭ علمِ دین حاصل کرنا فرض ہے جو چیزیں   بندے پر فرض و واجب ہیں   اور جو اس کے لئے ممنوع و حرام ہیں   اس کا سیکھنا فرضِ عین ہے اور اس سے زائد علم حاصل کرنا فرضِ کفایہ۔ حدیث شریف میں   ہے علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ امام شافعی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا کہ علم سیکھنا نفل نماز سے افضل ہے۔

٭ طلبِ علم کے لئے سفر کا حکم حدیث شریف میں   ہے جو شخص طلبِ علم کے لئے راہ چلے اللہ  اس کے لئے جنّت کی راہ آسان کرتا ہے۔   ([2]

نیکی کی دعوت عام کرنے کا حکم:

اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کا پارہ4سورۂ  اٰل عمران آیت نمبر 104میں   فرمانِ ہدایت نشان ہے:

 



[1]    کشف الخفا،  حرف الخاء المعجمۃ،  الحدیث:۱۲۵۲،  ج۱،  ص۳۴۸                                  مکاشفۃ القلوب،  باب الخامس عشرفی الامربالمعروف...الخ،  ص۴۸

[2]    خزائن العرفان،  پ۱۱،  التوبہ:۱۲۲،  حاشیہ نمبر ۲۹۳

Index