امیر اہلسنت کی دینی خدمات

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

٭٭٭٭

شرعی احکام کی اہمیت و ضرورت

علم کی اہمیت کے لیے یہی کافی ہے کہ محسنِ کائنات،  فخر موجودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر غارِ حرا میں   جو سب سے پہلی وحی نازل ہوئی وہ بھی علم سے متعلق تھی۔ چنانچہ اسلام نے اپنے ہر ماننے والے پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے اور قرآن وحدیث میں   اس کی بے شمار ترغیبات مذکور ہیں  ۔ ان تمام آیات و احادیث مبارکہ سے بلاشک و شبہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے علم حاصل کرنے کو ہر چیز پر ترجیح دی ہے اور اسلام کسی بھی مسلمان کو علم سے محروم رہنے کی اجازت نہیں   دیتا مگر سوال یہ ہے کہ وہ کون سا علم ہے جس کا حاصل کرنا  ’’ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ ‘‘   ([1] میں   ہر مسلمان پر لازم قرار دیا گیا اور جس کے حصول کی خاطر  ’’ اُطْلُبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّیْنِ ‘‘   ([2]میں   مشقت و تکلیف برداشت کر کے چین جیسے دور دراز ملک بھی جانے کا حکم دیا گیا۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ معلوم ہو گیا کہ علم حاصل کرنا فرض ہے مگر کیا تمام علوم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟  یا ہر ایک اپنی مرضی سے جو چاہے جیسا چاہے علم حاصل کر سکتا ہے؟  تو یاد رکھئے کہ تمام علوم حاصل کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں   کیونکہ ایک تو علوم کی تعداد شمار سے باہر ہے اور دوسرے ہر علم کی وسعت اس قدر ہے جس کا احاطہ ناممکن ہے،  پس اگر تمام علوم کا حاصل کرنا فرض قرار دیا جائے تو یہ ایسا حکم ہو گا جس کا پورا کرنا انسان کی طاقت و قدرت سے باہر ہو گا اور شریعت میں   کوئی ایسا حکم نہیں   جو انسان کی قوت و استطاعت سے باہر ہو۔ نیز یہ حکم بھی نہیں   دیا گیا کہ ہر کوئی جو چاہے جیسا چاہے علم حاصل کر سکتا ہے کیونکہ کئی علوم کے حصول کو شریعت نے حرام یا ناجائز اور بعض کے حصول کو کفر قرار دیا ہے یعنی جو علوم انسان کی گمراہی،  فسق و فجور اور معصیت ِ الٰہی کا سبب بنیں   ان کا حاصل کرنا سخت حرام اور جو علوم انکارِ خدا اور کفر و اِلحاد و غیرہ میں   مبتلا کر دیں  ،  ان کاحاصل کرنا کفر ہے۔

یاد رکھیے! جس علم کے حصول کو فرض قرار دیا گیا ہے اس سے مراد وہی علم ہوسکتا ہے جو ٭ انسان کو حق و صداقت کی طرف لے جائے ٭ کفر و شرک اور ہر قسم کی گمراہی سے بچائے ٭ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانبردار اور اطاعت شعار بندہ بنائے کیونکہ اسلامی تعلیمات اور بعثت و رسالت کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان ٭ اپنے خالق عَزَّ وَجَلَّ  کو پہچانے ٭ اس کی وحدانیت کا اقرار کرے ٭  اس کے پیارے حبیب،  حبیب لبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رسالت پر ایمان لائے ٭ کفر و شرک اور ہر قسم کی گمراہی و معصیت سے دور رہے ٭ اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ  کے احکام سے واقفیت حاصل کرے تاکہ ا ن پر عمل کرکے اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرت کو بھی پاک و صاف بنائے اور ایسا علم علم شریعت کے سوا کوئی نہیں   ہو سکتا۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! علم شریعت پر عمل کے بغیر اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت ممکن ہے نہ اس کے محبوب،  دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی اور اس کے بغیر حکمت حاصل ہوسکتی ہے نہ تزکیۂ نفس،  لہٰذا ہر مسلمان پر بقدرِ ضرورت علم شریعت حاصل کرنا لازم ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے بنیادی عقائد کا سیکھنا فرض ہے،  اس کے بعدنَماز کے فرائض و شرائط و مفسدات،  پھر رَمضانُ المبارَک کی تشریف آوری پر فرض ہونے کی صورت میں   روزوں   کے ضَروری مسائل،  جس پر زکوٰۃ فرض ہو اُس کے لیے زکوٰۃ کے ضَروری مسائل،  اسی طرح حج فرض ہونے کی صورت میں   حج کے،  نکاح کرنا چاہے تو اس کے،  تاجر کو خرید و فروخت کے،  نوکری کرنے والے کو نوکری کے،  نوکر رکھنے والے کو اجارے کے،  و علٰی ھٰذا الْقیاس   (یعنی اوراسی پر قِیاس کرتے ہوئے)   ہر مسلمان عاقِل و بالِغ مردو عورت پر اُس کی موجودہ حالت کے مطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عَین ہے۔

 



[1]    علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (سنن ابن ماجہ،  کتاب السنۃ،  الحدیث: ۲۲۴،  ج۱،  ص۱۴۶)

[2]    علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے۔ (شعب الایمان،  باب فی طلب العلم،  الحدیث:۱۶۶۳،  ج۲،  ص۲۵۴)

Index