امیر اہلسنت کی دینی خدمات

  (3 مجلسِ اجارہ

  (4 مجلس حفاظتی امور

دعوتِ اسلامی کے انتظامی امور کی دیکھ بھال کرنے والی مجالس

وقف کا منتظم کیسا ہونا چاہئے؟

قاضی وَکِیْع عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْبَدِیْع سے منقول ہے کہ مُعْتَضِد باللّٰہ کے زمانۂ خلافت میں   قاضی ابو حَازِم عبدالحمید عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْمَجِیْد نے حسن بن سَہْل کی وقف کردہ زرعی زمین کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات پر مجھے نگہبان مقر ر کر دیا۔ اس سے جو آمدنی ہوتی میں   اسے شرعی احکام کے مطابق بیت المال او ر غربا وغیرہ میں   تقسیم کر دیتا۔ جب خلیفہ مُعْتَضِد باللّٰہ نے اپنے لئے محل تعمیر کروایا تو حسن بن سَہْل کی کچھ َموْقوفہ   (یعنی وقف کی ہوئی)   زمین بھی عمارت میں   شامل کر لی۔ سال ختم ہونے پر میں   نے تمام زمین کا حساب کر کے مال وصول کر لیا،  صرف شاہی محل میں   شامل کی گئی زمین کا حساب باقی تھا۔ خلیفہ سے اس زمین کی آمدنی کا مطالبہ کرنے کی مجھے جرات نہ ہوئی۔ میں   تمام جمع شدہ مال وغلّہ لے کر قاضی ابوحَازِم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْحَاکِم کے پاس آیا اور کہا:  ’’ میں   نے اوقاف کی تمام زمین سے غلّہ وغیرہ وصول کر لیا ہے اور تمام آمدنی میرے پاس موجود ہے،  آپ مجھے اسے تقسیم کرنے کی اجازت دیں   تا کہ جتنا غلہ بیج کے لئے درکار ہے اتنا علیحدہ کر کے باقی مستحقین میں   تقسیم کر دوں  ۔ ‘‘

قاضی صاحب نے پوچھا:  ’’ کیا جو زمین خلیفہ مُعْتَضِد باللّٰہ نے اپنے محل کے اِحاطہ میں   شامل کی ہے ،  اس کی آمدنی بھی وصول کرلی گئی ہے؟  ‘‘  میں   نے کہا:  ’’ حضور! خلیفہ سے کون مطالبہ کر سکتا ہے؟  ‘‘  فرمایا:  ’’ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! میں   اس وقت تک یہاں   سے نہیں   اٹھوں   گا جب تک وہ تمام رقم وصول نہ کر لوں   جو خلیفۂ وقت کے ذمہ ہے،  بخدا! اگر خلیفہ نے غلہ یا اس کی قیمت ادا نہ کی تو میں   کبھی بھی عہدۂ قضا قبول نہ کروں   گا۔ اے وَکِیْع   (عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْبَدِیْع  ! تم فوراً خلیفہ کے پاس جاؤ اور رقم کا مطالبہ کرو۔ ‘‘  میں   نے عرض کی: مجھے دربارِ شاہی تک کون پہنچا ئے گا؟   فرمایا: فلاں   سرکاری نمائندے کے پاس جاؤ اور کہو کہ میں   قاضی صاحب کا قاصد ہوں  ،  ایک بہت ہی اہم کام کے سلسلے میں   اِسی وقت خلیفہ کے پاس حاضر ہونا چاہتا ہوں   تم مجھے دربارِ شاہی تک لے چلو۔ سیدنا وَکِیْع عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْبَدِیْع کہتے ہیں   کہ میں   اس سرکاری نمائندے کے پاس پہنچا تو وہ مجھے لے کر خلیفہ کے محل پہنچا۔ رات کا آخری پہر تھا،  ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ پورا شہر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ جب خلیفہ کو بتایا گیا کہ ایک بہت ضروری کام کے سلسلے میں   قاضی ابو حَازِم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْحَاکِم کا قاصد آیا ہے تو خلیفہ نے فوراً مجھے اپنے پاس بلا لیا اور پوچھا: ایسا کون سا ضروری کام ہے جس کی خاطر اتنی رات گئے آنا پڑا؟  میں   نے کہا:  ’’ حضور! آج میں   نے تمام موقوفہ زمینوں   کا حساب کیا اور ان کی آمدنی قاضی ابو حَازِم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْحَاکِم تک پہنچا کر مستحقین میں   تقسیم کرنے کی اجازت طلب کی،  قاضی صاحب نے تفتیش کی تو اس زمین کی آمدنی اس مال میں   شامل نہ تھی جو آپ کے محل کے احاطہ میں   داخل کر دی گئی ہے،  قاضی صاحب نے فرمایا: اس وقت تک یہ آمدنی کہیں   بھی صرف نہ ہو گی جب تک خلیفہ کے محل میں   شامل کردہ زمین کی آمدنی وصول نہ ہو جائے۔ بس اسی سلسلے میں   حاضر ہوا ہوں  ۔ ‘‘  

خلیفہ مُعْتَضِد باللّٰہ کچھ دیر خاموش رہا،  پھر کہا:  ’’ بیشک قاضی صاحب نے صحیح کیا اور وہ حق کو پہنچ گیا۔ ‘‘  یہ کہہ کر اس نے خادمین سے کہا: جاؤ اور فلاں   صندوق اٹھا لاؤ۔ حکم کی تعمیل ہوئی دراہم ودنانیر   (یعنی سونے و چاندی سے بنے ہوئے سکوں  )   سے بھرا صندوق لایا گیا،  خلیفہ نے کہا:  ’’ بتاؤ! ہمارے ذمہ کتنا مال ہے؟  ‘‘   میں   نے کہا:  ’’ جب سے وہ زمین محل میں   شامل کی گئی ہے اس وقت سے اب تک اس ز مین سے تقریباً چار سو دینار آمدنی ہو سکتی تھی،  آپ اتنی ہی رقم ادا کر دیں  ۔ ‘‘  خلیفہ نے کہا:  ’’ بتاؤ! گِن کر ادا کروں   یا وزن کروا کر؟  ‘‘ میں   نے کہا: جو طریقہ زیادہ بہتر ہو وہی اختیار فرمائیے۔ خلیفہ نے ترازو منگوایا اور چار سو دینار تول کر میرے حوالے کر دیئے گئے۔ میں   تمام رقم لے کر قاضی ابو حَازِم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْحَاکِم کے پاس پہنچا اور سارا واقعہ کہہ سنایا۔ فرمایا:  ’’ یہ رقم فوراً وقف کی آمدنی میں   شامل کر دو اور صبح ہوتے ہی بیج کے لئے غلہ نکال کر بقیہ مال مستحقین میں   تقسیم کر

Index