امیر اہلسنت کی دینی خدمات

پوچھا: جناب کا اِسم شریف؟  جواب ملا:  ’’ حاجی شفیق ‘‘  اور آپ کا مبارک نام؟  اب دوسرے نے سوال کیا،  پہلے نے جواب دیا:  ’’ نَمازی رفیق۔ ‘‘  حاجی صاحِب کو بڑی حیرت ہوئی،  پوچھ ڈالا: اَجی نمازی رفیق! یہ تو بڑا عجیب سا نام لگتا ہے۔ نمازی صاحِب نے پوچھا: بتایئے آپ نے کتنی بار حج کا شَرَف حاصل کیا ہے؟  حاجی صاحِب نے کہا: اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ  ! پچھلے سال ہی تو حج پر گیا تھا۔ نَمازی صاحب کہنے لگے: آپ نے زندگی میں   صِرْف ایک بار حجِ بَیْتُ اللہ  کی سعادت حاصل کی تو بَبانگِ دُہل اپنے آپ کو  ’’ حاجی ‘‘  کہنے کہلوانے لگے اور یوں   اپنے حج کا سرِ عام اِعلان فرمانے لگے اور بندہ تو بِلانا غہ روزانہ پانچ وَقْت پابندی کے ساتھ نَماز ادا کرتا ہے،  تو پھر اپنے آپ کو اگر  ’’ نمازی ‘‘  کہلوائے تو اِس میں   تَعَجُّب کی کون سی بات ہے؟

حج مبارک کا بورڈ لگانا کیسا...؟

سمجھ گئے نا؟  آج تو نمود ونُمائش کی اِنتہاء ہوگئی،  عجیب تَماشاہے،  حاجی صاحِب حج کو آتے جاتے ہیں   تو پوری عمارت کو بَرْقی قُمقُموں   سے سجایا جاتا ہے اور

 گھر پر  ’’ حج مُبارَک ‘‘  کا بورڈ لگایا جاتا ہے،  بلکہ توبہ! توبہ! کہیں   کہیں   تو دیکھا گیا ہے کہ حاجِیوں   کی اِحْرام کے ساتھ خُوب تصاویر اُتاری جاتی ہیں  ۔ آخِر یہ کیا ہے؟  کیا بھاگے ہوئے مجرم کا اپنے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں   اِس طرح دُھوم دھام سے جانا مناسب ہے؟  نہیں   ہر گز نہیں   بلکہ روتے ہوئے اور آہیں   بھرتے ہوئے،  لرزتے،  کاپنتے ہوئے جانا چاہیے۔

آنسوؤں   کی لڑی بن رہی ہو

اور آہوں   سے پھٹتا ہو سینہ

وِرْدِ لب  ہو ”مدینہ مدینہ“

جب چلے سُوئے طیبہ سفینہ

جب مدینے میں   ہو  اپنی آمد

جب میں   دیکھوں   تِرا سبز گنبد

ہِچکیاں   باندھ کر روؤں   بیحد

کاش ! آ جائے ایسا قرینہ

پیدل سفر حج:

حضرتِ سَیِّدُنا مالک بِن دِینار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار حج کے لئے بصرہ سے پیدل نکلے کسی نے عرض کی: آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سَوار کیوں   نہیں   ہوتے؟  آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا : ’’ بھاگا ہوا غلام جب اپنے مولا عَزَّ وَجَلَّ  کے دَربار میں   صُلح کے لئے حاضر ہو تو کیا اُسے سَوار ہوکر آنا چاہئے؟  خُدا عَزَّ وَجَلَّ  کی قسم! اگر میں   مَکَّہ مُعَظَّمہ اَنگاروں   پر چلتا ہوا پہنچوں   تو یہ بھی کم ہے۔   ([1]

ارے زائرِ مدینہ ! تُو خوشی سے ہنس رہا ہے

دلِ غمزدہ جو پاتا تو کچھ اور بات ہوتی !

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

٭٭٭٭

  (9 مدنی مذاکرات

شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے  ’’ علم بے شمار خزانوں   کا مجموعہ ہے جن کے حصول کا ذریعہ سوال ہے۔ ‘‘  کے قول  کو عملی جامہ پہناتے ہوئے تبلیغ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مدنی مقصد کی تکمیل کے لئے سوال جواب کا ایک سلسلہ شروع کیا جسے تنظیمی اصطلاح میں   مدنی مذاکرہ کہا جاتا ہے۔

 



[1]    تنبیہُ المغترّین،  ص ۴۹

Index