امیر اہلسنت کی دینی خدمات

ہوتی رہیں  ،  شہر بستے اور تباہی کا شکار ہوتے رہے مگر باقی رہا تو صرف نامِ خدا یا کامِ بندگانِ خدا۔ ان نیک طینت بندگانِ خدا نے جب احکامِ خداوندی کو اپنے نفوس کی سلطنت پر نافذ کیا تو ربّ قدوس عَزَّ وَجَلَّ  نے عام لوگوں   کے دلوں   پر ان کی حکومت قائم فرما دی،  نیز انہیں   اپنا دوست قرار دیتے ہوئے:   (وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ  (۶۲)    ([1]کا مژدۂ جانفزا سنایا اور   (لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِؕ-   ([2]کی سند بھی عطا فرمائی۔

دین اسلام کی شمع کو فروزاں   کرنے میں   ان اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کی خدماتِ جلیلہ ایک تاریخی حقیقت ہے ان نفوسِ قدسیہ نے طمع و خوف سے بے نیاز ہو کر محض رضائے الٰہی کے لئے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ لوگوں   کی اصلاح کے لئے وقف ہی نہیں   کیا بلکہ ہر دم یہ مردانِ حق دوا،  دعا،  تعلیم وتربیت اور باطنی اصلاح کے لئے قائم کئے گئے اپنے اپنے مراکز جنہیں   خانقاہ بھی کہا جاتا ہے،  میں   نورِ نبوت سے مستفیض خلقِ خدا کی دنیا و آخرت سنوارنے میں   مصروف رہے۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کے تذکروں   کی شان ہی نرالی ہے۔ ان کا مطالعہ شیخ کامل کی صحبت کا نعم البدل ثابت ہوتا ہے۔ محبت الٰہی کے خشک سوتے   (زمین سے پانی نکلنے کی جگہیں   مثلاً چشمے وغیرہ)   از سر نو اُبلنے لگتے ہیں  ۔ غافل دلوں   میں   یادِ الٰہی کی شمع روشن ہو جاتی ہے۔ ان بندگانِ خدا کے حالات کے مطالعہ کی برکت سے نَفْسِ اَمَّارَہ   (یعنی برائی کی جانب مائل کرنے والے نفس)   کی سرکشی پر قابو پانے کی ہمت پیدا ہو جاتی ہے۔ عبادت و اطاعت کی منزل کا سست گام مسافر،  برق رفتار بن جاتا ہے۔ ان مسیحا نفس حضرات کی تاباں   سیرت کے مطالعہ سے انسان کی کایا ہی پلٹ جاتی ہے۔ چنانچہ،  

شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ہمیشہ تبلیغ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے ہر ہر اسلامی بھائی و اسلامی بہن کو ان نفوسِ قدسیہ کی تعظیم و تکریم کا درس دیا۔ آپ کے اسی درس کا نتیجہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے تحت ایک مجلس بنام مجلسِ مزاراتِ اولیا قائم ہے جس کا کام ہی ان اولیائے کرام کی خانقاہوں   اور درگاہوں   پر حاضرہو کر ان کے شروع کئے گئے لوگوں   کی اصلاح کے کام کو جاری و ساری رکھنا اور طریقت و معرفت کے ان بیکراں   سمندروں   سے آب دار موتیوں   سے جھولیاں   بھر بھر کر حق کے متلاشیوں   اور متوالوں   کے ذوقِ لطیف کی تسکین کا سامان بنانا ہے۔

مجلس مزاراتِ اولیا کے مدنی پھول:

٭ عوام اولیائے کرام کے دیوانے ہیں  ،  لہٰذا عرس کے موقع پر ایک دناجتماعِ ذکر ونعت ہونا چاہئے، جس میں   کسی نگرانِ کابینہ/نگران ڈویژن مشاورت/کسی اچھے مبلغ کا بیان ہو اور مجلس مووی و ریلے کابینہ سطح کے ذمہ دار کی مشاورت سے مدنی چینل کی ریکارڈنگ بھی ہو۔

٭ جن مزارات پر عاشقانِ رسول کی آمد ورفت روزانہ ہے ، وہاں   مُبَلِّغ کا روزانہ جانا ضروری ہے۔ جہاں   ہفتہ وار ہے وہاں   ہفتہ وار اور جہاں   سالانہ ہے وہاں   سالانہ۔

٭ اراکینِ مجلس اعراس کے موقع پر مزارات پر حاضری کو اس طرح لازم جانیں   کہ اگر وہ کسی عرس پر موجود نہیں   ہوں   گے تو سمجھیں   کہ مجلسِ مزاراتِ اولیا کا وجود ہی نہیں  ۔

٭ 63دِن قبل ہی عرس کی تیاری شروع کر دینی چاہئے۔

٭ ارشادِ شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ : ایسے مزاراتِ اولیا جہاں   عاشقانِ رسول کا ہجوم رہتا ہو،  وہاں   ہر وقت مدنی قافلہ موجود ہونا چاہئے،  اس طرح کہ ایک مدنی قافلہ دوسرے مدنی قافلے کا استقبال کرے۔

 



[1] ۔   ترجمۂ کنز الایمان: اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو اور نہ کچھ غم۔ (پ۱،  البقرہ:۶۲)

[2] ۔   ترجمۂ کنز الایمان: انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں۔ (پ۱۱،  یونس:۶۴)

Index