امیر اہلسنت کی دینی خدمات

دینا۔ خبردار! اس معاملے میں   ذرا سی بھی تاخیر نہ کرنا۔ ‘‘    ([1]

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! وقف کی آمدنی وصول کرنے والے حضرت سیدنا قاضی ابو حَازِم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْحَاکِم نے خلیفۂ وقت کی پرواہ نہ کی تو خلیفہ نے بھی وقف کے مال کی واپسی میں   پس و پیش سے کام نہ لیا بلکہ معلوم ہونے پر خوشی خوشی مطلوبہ رقم ہاتھوں   ہاتھ ادا کر دی۔

آخر یہ وقف کا مال کیا چیز ہے کہ ایک طرف قاضی صاحب کا اس قدر احتیاط برتنا کہ معمولی سی رقم اور وہ بھی جو خلیفۂ وقت کے ذمہ واجب الادا تھی،  کی وصولی میں   اس قدر سختی سے پیش آنا اس کی اہمیت کا احساس دلا رہا ہے تو دوسری طرف خلیفۂ وقت کا رات گئے اتنی سی رقم کے لئے جگائے جانے پر خندہ پیشانی سے رقم ادا کر دینا ہمیں   حیرت میں   ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ اس لئے کہ وقف کے مال کی اہمیت سے ہم واقف نہیں   ہیں  ،  وہ لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ اسلام میں   وقف کو کس قدر اہمیت حاصل ہے،  یہی وجہ ہے کہ انہوں   نے مال کی وصولی اور ادائیگی میں   صبح تک تاخیر سے کام نہ لیا۔

وقف کیا ہے؟

وقف کے معنی یہ ہیں   کہ کسی شے کو اپنی ملک سے خارج کرکے خالص اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کی ملک کردینا اس طرح کہ اُس کا نفع بند گانِ خدا میں   سے جس کو چاہے ملتا رہے۔ جو چیز ایک بار وقف کر دی جائے اس کو کوئی باطل نہیں   کر سکتا ہے،  اس میں   میراث جاری ہوتی ہے نہ اسکی بیع   (فروخت)   ہوسکتی ہے اور نہ ہی وقف کی گئی چیز کسی کو تحفے میں   دی جا سکتی ہے۔وقف میں   اگر نیت اچھی ہو اور وقف کرنے والا مسلمان ہو تو مستحق ثواب ہے۔ اس لئے کہ وقف ایک صدقہ جاریہ ہے جس کا ثواب واقف ہمیشہ پاتا رہے گا اور سب میں   بہتر وہ وقف ہے جس کی مسلمانوں   کو زیادہ ضرورت ہو اور جس کا زیادہ نفع ہو مثلاً کتابیں   خرید کر کتب خانہ بنایا اور وقف کر دیا کہ ہمیشہ دین کی باتیں   اسکے ذریعہ سے معلوم ہوتی رہیں   گی اور اگر وہاں   مسجد نہ ہو اور اسکی ضرورت ہو تو مسجد بنوانا بہت ثواب کا کام ہے اور تعلیم علمِ دین کے لیے مدرسہ کی ضرورت ہو تو مدرسہ قائم کر دینا اور اسکی بقا کے لیے جائداد وقف کرنا کہ ہمیشہ مسلمان اس سے فیض پاتے رہیں   نہایت اعلیٰ درجہ کا نیک کام ہے۔ وقف کی صحت کے لیے یہ ضروری نہیں   کہ اُسکے لیے متولی مقرر کر کے اپنے قبضہ سے نکال کر متولی کا قبضہ دلا دیں   بلکہ واقف نے اگر اپنے ہی قبضہ میں   رکھا جب بھی وقف صحیح ہے۔ کیونکہ وقف کا حکم یہ ہے کہ جس شے کو وقف کیا جائے وہ واقف کی ملک سے خارج ہو جاتی ہے مگر موقوف علیہ   (یعنی جس پر وقف کیا ہے اُسکی)   مِلک میں   داخل نہیں   ہوتی بلکہ خالص اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کی مِلک قرار پاتی ہے۔   ([2]

پس جو شے اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کی ہو اور اللہ  عَزَّ وَجَلَّ نے اپنی مخلوق میں   سے کسی کو اس شے سے نفع حاصل کرنے کی اجازت دے رکھی ہو تو اب اس کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے اس شے کا استعمال جائز نہیں  ۔

تبلیغ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی چونکہ پوری دنیا میں   نیکی کی دعوت عام کرنے کی دھومیں   مچانے کا جذبہ رکھتی ہے اور اس کام کے لئے درکار کثیر مال کا حصول مدنی عطیات کے بغیر ممکن نہیں   لہٰذا مالِ وقف کی اہمیت اور اس معاملے میں   شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی حد درجہ احتیاطوں   کے پیشِ نظر اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ  تبلیغ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے انتظامی ترکیب کو مضبوط کرنے اور اس مدنی مقصد  ’’ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں   کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ ‘‘  اِنْ شَآءَاللہ  عَزَّ  وَجَلَّ  کی تکمیل کے لئے چار مجالس قائم کی گئی ہیں  ۔

٭…  مدنی عطیات و وقف کردہ اموال کی دیکھ بھال اور ان کے صحیح استعمال کے لئے مجلسِ مالیات۔

٭…  دعوتِ اسلامی کے نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے دنیا بھر میں   مختلف جگہوں   پر قائم کردہ مدنی مراکز و دیگر اثاثہ جات کی مکمل تفصیلات کا



[1]    عیون الحکایات مترجم،  ج۲،  ص۹۹

[2]    بہارِ شریعت،  ج۲،  ص۵۲۳ تا ۵۲۴

Index