امیر اہلسنت کی دینی خدمات

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ حضرتِ سیِّدنا عمر بن عبدالعزیز  عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْعَزِیز نے عالِم دین کی کیسی تعظیم کی اور قاصِد کی غلطی کا کیسے اِزالہ کیا! ہمیں   بھی چاہئے کہ علمائے کرام کے ادب و احترام میں   کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں  ۔ کیونکہ علمائے کرام کے فضائل بہت سی احادیث مبارکہ میں   بیان ہوئے ہیں   چند پیشِ خدمت ہیں  :

  (1 … محبوب ربِّ داور،  شفیعِ روزِ مَحشر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ فضیلت نشان ہے: اِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِعَلٰی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ  یعنی عالم کی فضیلت عابِد   (یعنی عبادت گزار)   پر ایسی ہے جیسے چودہویں   رات کے چاند کی تاروں   پر۔   ([1]

  (2 … حضورنبی ٔرحمت،  شفیعِ اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سامنے د و آدمیوں   کا ذکر کیا گیا۔ ان میں   سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم،  تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:  ’’ عابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسی میری فضیلت تمہارے ادنیٰ آدمی پر۔ ‘‘  پھر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں   کو بھلائی سکھانے والے پر اللہ  عَزَّ وَجَلَّ رحمت نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے نیز زمین و آسمان کے رہنے والے یہاں  تک کہ چیونٹیاں   اپنے سوراخوں   میں   اور مچھلیاں     (پانی میں  )   اس کے لیے دعائے رحمت کرتی ہیں    ([2]اور ایک روایت میں   ہے کہ  ’’ عالِمِ دین کے لئے آسمان و زمین کی تمام مخلوق دُعائے مغفرت کرتی ہے۔ ‘‘    ([3]

حضرتِ سیدنا شیخ عبد الحق مُحدِّث دہلوی بخاری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی اس حدیثِ پاک کی شرح میں   فرماتے ہیں   کہ سارے جہاں   کا عالِم کیلئے دُعائے مغفرت کا سبب یہ ہے کہ جہان   (ساری دنیا)   کی دُرُستی علمِ دین کی بَرَکت سے ہے،  اہلِ جہان کی تمام چیزوں   میں   سے کوئی بھی ایسی چیز نہیں   جس کی دُرُستی اور وُجُود علمِ دِین کی بَرَکت سے نہ ہو۔   ([4]  (3 … حضرتِ سیِّدُنا جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے رِوایت ہے:  ’’ عالموں   کی عزّت کرو اس لئے کہ وہ اَنبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارِث ہیں   تو جس نے ان کی عزّت کی تحقیق اس نے اللہ  عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عزّت کی۔ ‘‘    ([5]

سارے سُنّی عالِموں   سے تُو بنا کر رکھ سدا

کر ادب ہر ایک کا ، ہونا نہ تُو اُن سے جدا  ([6]

  (4   حضرتِ  سیِّدُنا فقیہ ابواللَّیث سَمَرقندی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں   کہ عالم کی صُحبت میں   حاضِر ہونے میں   سات فائدے ہیں   خواہ علم حاصل کرے یا نہ کرے:   (۱)   وہ شخص طالب علموں   کے زُمرے میں   شمار کیا جاتا ہے اور ان کا سا ثواب پاتا ہے   (۲)   جب تک اُس مجلس میں   بیٹھا رہے گا گناہوں   سے بچا رہے گا   (۳)   جس وقت یہ اپنے گھر سے طَلَبِ علم کی نیَّت سے نکلتا ہے ہر قدم پر نیکی پاتا ہے   (۴)   علم کے حَلقے میں   رحمتِ الٰہی نازِل ہوتی ہے جس میں   یہ بھی شریک ہو جاتا ہے   (۵)   یہ علم کا ذکر سنتا ہے جو کہ عبادت ہے   (۶)   وہاں   جب کوئی مشکل مسئلہ سنتا ہے جو اس کی سمجھ میں   نہیں   آتا اور اس کا دل پریشان ہوتا ہے تو حق تعالیٰ کے نزدیک مُنکَسِرُ الْقُلُوب میں   شمار کیا جاتا ہے   (۷)   اس کے دل میں  علم کی عزّت اور جَہالت سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔   ([7]

علم کے قدردان:

 



[1]    ابن ماجہ،  کتاب السنۃ،  باب فضل العلماء،  الحدیث: ۲۲۳،   ج۱،  ص۱۴۶

[2]    ترمذی،   کتاب العلم،  باب فی فضل الفقہ علی العبادۃ،  الحدیث: ۲۶۹۴،  ج۴،  ص۳۱۳

[3]    المرجع السابق،  الحدیث: ۲۶۹۱،  ص ۳۱۲

[4]    اشعۃ اللمعات، ج۱، ص۱۷۰

[5]    الجامع الصغیر،  الحدیث: ۱۴۲۸،  ص ۸۸

[6]    وسائل بخشش،  ص۶۴۶

[7]    تفسیر کبیر ،  ج۱،  ص۴۰۳وتفسیر نعیمی،  ج۱،  ص۲۳۲

Index