امیر اہلسنت کی دینی خدمات

کرنی چاہئے تا کہ وہ بھی مدنی ماحول کی برکت سے محروم نہ رہیں  ۔ عموماً قراٰن و سنّت کی تعلیم سے بے بہرہ لوگ ہی نفس و شیطان کے بہکاوے میں   آکر قتل وغارت گری،  دہشت گردی،  توڑپھوڑ،  چوری،  ڈکیتی،  زناکاری،  منشیات فروشی اور جوا وغیرہ جیسے گھناؤنے جرائم میں   مبتلا ہو کر بالآخر جیل کی چار دیواری میں   مقید ہو جاتے ہیں  ۔

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ  مسلمان قیدیوں   کی سنتوں   بھری تربیت کے لیے دنیا کے کئی جیل خانوں   میں   دعوتِ اسلامی کی مجلس ”فیضانِ قرآن“ کے ذَریعے مَدَنی کام کی ترکیب ہے۔ جیل خانہ جات میں   دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کام کا آغاز کچھ اس طرح ہوا کہ چند سال قبل ایک قیدی جیل سے رِہائی پانے کے بعد شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی خدمت میں   حاضر ہوا اور کچھ یوں   عرض کی کہ آزاد دنیا کی طرح ہماری جیلوں   کا بھی ماحول کچھ ایسا ہے کہ قیدی سدھرنے اور توبہ کرنے کے بجائے گناہوں   کی دلدل میں   مزید دھنستا چلا جاتا ہے لہٰذا جیل کے اندر نیکی کی دعوت عام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اس کے یہ جذبات سن کر اُمَّت کے عظیم خیر خواہ امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے آزاد اسلامی بھائیوں   کی طرح قیدیوں   میں   بھی دعوتِ اسلامی کا مَدَنی کام شروع کرنے کافیصلہ فرمایا۔ کیونکہ شیخ طریقت،  امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا فرمان ہے کہ تبلیغ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی جیل بھرو نہیں   بلکہ مسجد بھرو تحریک ہے۔ چنانچہ جیل خانہ جات میں   نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے تحت مجلسِ جیل کا آغاز شعبان المعظم ۱۴۲۳؁ھ بمطابق اکتوبر ۲۰۰۲؁ء میں   ہوا۔

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ  دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کام کی جیل خانہ جات میں   خوب بہاریں   ہیں  ،  کئی ڈاکو اور جرائم پیشہ افراد جیل کے اندر ہونے والے مَدَنی کاموں   سے متأثر ہو کر تائب ہو جاتے ہیں   اور رِہائی پانے کے بعد عاشقانِ رسول کے ساتھ مَدَنی قافلوں   کے مسافر بننے اور سنّتوں   بھری زندگی گزارنے کی سعادت پاتے ہیں  ،  آتشیں   اسلحے کے ذَرِیعے اندھا دُھند گولیاں   برسانے والے اب سنّتوں   کے مَدَنی پھول برسا رہے ہیں  ۔ چنانچہ،  

مشہور صوفی بُزُرگ بابا بُلّھے شاہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاکیزہ خِطّے ضلع قُصُور ڈاکخانہ کھڈیاں   سے ایک اسلامی بہن نے کچھ اس طرح کی تحریر بھجوائی: مجھے بیوہ ہوئے آٹھ سال گزر چکے ہیں   میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ بُری صحبت کے سبب وہ لڑائی جھگڑوں   کاعادی ہو گیا اور مَنشیات فروشی کے دھندے میں   پڑ گیا،  سمجھاتی تو مجھے گالیاں   دیتا اور مارتا۔ آہ! میرا لختِ جگر نظر کا نور اور دل کا سُرور بننے کے بجائے میرے جگر کا ناسُور بن گیا۔ کئی بار پولیس اُٹھا کے لے گئی،  میں   جُوں   تُوں   کر کے اُس کو چُھڑوا کر لاتی،  کئی مقَدَّمے اُس پر قائم تھے۔ آخِر کار کسی مقدَّمے میں   اُس کو سزا سنائی گئی اور وہ جَیل کی آہنی سلاخوں   کے پیچھے چلا گیا۔ تقریباً آٹھ ماہ کے بعد جب وہ ضَمانت پر رِہا ہو کر گھر آیا تویہ دیکھ کر میں   حیران رہ گئی کہ آیا یہ خواب ہے یا حقیقت! بات بات پر مجھے گالیوں   سے نوازنے اور مار دھاڑ کرنے والا بد مزاج بیٹا آج میرے قدموں   میں   گر کر رو رو کر مجھ سے مُعافیاں   مانگے جا رہا ہے۔

اتنے میں   اذانِ مغرِب کی صدا سے فضا گونج اٹھی اور وہ نَماز پڑھنے کیلئے جانِب مسجِد روانہ ہو گیا۔ اس کے چہرے پر تقدُّس کا نُور جھلک رہا تھا اور انداز میں   بھی نُمایاں   تبدیلی تھی،  کل تک گالیاں   بکنے والا نوجوان آج بات بات پرسُبحٰنَ اللہ ،  اَلحَمْدُ لِلّٰہ،  ماشآءَ اللہ  اور اِن شآءَ اللہ  کہے جا رہا تھا،  اُس کی زَبان ذکرو دُرود سے تر تھی،  عشا کی نَماز با جماعت ادا کرنے کے بعد مسجِد سے واپَس آ کر وہ جلد ہی لیٹ گیا،  میں   بھی سو گئی۔ رات تقریباً دو بجے جب میری آنکھ کھلی تو قریبی چارپائی پر سویا ہوا بیٹا غائب تھا! میں   گھبرا کر اُٹھ بیٹھی کہ کہیں   پھر وارِدات کرنے اور کسی کا گھر اُجاڑنے تو نہیں   چلا گیا! مگر جُوں   ہی صِحن کی طرف نظر اُٹھی تو کیا دیکھتی ہوں   کہ میرا بیٹا مُصلّٰی بچھائے خُشُو ع و خُضُوع کے ساتھ تَہَجُّد ادا کر رہا ہے سلام پھیرنے کے بعد وہ رو رو کر ربِّ کائنات کے حُضُور مُناجات میں   مشغول ہو گیا۔

گناہوں   سے مجھ کو بچا یا الہٰی

بُری خصلتیں   بھی چُھڑا یاالہٰی

خطاؤں   کو میری مِٹا یا الہٰی

مجھے نیک خصلت بنا یا الہٰی

تجھے واسطہ سارے نبیوں   کا مولا

 

Index