امیر اہلسنت کی دینی خدمات

متواضع   (تواضع کرنے والا)   ہونا ہے،  اس کے بعد ساتویں   مرتبہ صدقہ کا بیان ہے جو اللہ  تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے مال میں   سے اس کی راہ میں   بطریقِ فرض و نفل دینا ہے پھر آٹھویں   مرتبہ صوم   (روزے)   کا بیان ہے،  یہ بھی فرض و نفل دونوں   کو شامل ہے ۔ منقول ہے کہ جس نے ہر ہفتہ ایک درہم صدقہ کیا وہ متصدّقین   (صدقہ کرنے والوں  )   میں   اور جس نے ہر مہینہ ایامِ بیض کے تین روزے رکھے وہ صائمین   (روزہ رکھنے والوں  )   میں   شمار کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد نویں   مرتبہ عِفّت   (پارسائی وپاکدامنی)   کا بیان ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنی پارسائی کو محفوظ رکھے اور جو حلال نہیں   ہے اس سے بچے ،  سب سے آخر میں   دسویں   مرتبہ کثرتِ ذکر کا بیان ہے ذکر میں   تسبیح   (سُبْحَانَ اللہ )   ،  تحمید   (اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ،  تہلیل   (لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ،  تکبیر   (اللہ  اَکْبَر،  قراءتِ قرآن،  علمِ دِین کا پڑھنا پڑھانا ،  نماز ،  وعظ ،  نصیحت ،  میلاد شریف ،  نعت شریف پڑھنا سب داخل ہیں   ۔ کہا گیا ہے کہ بندہ ذاکرین میں   تب شمار ہوتا ہے جب کہ وہ کھڑے ،  بیٹھے ،   لیٹے ہر حال میں   اللہ  کا ذکر کرے ۔ ‘‘  

پس اللہ  عَزَّ وَجَلَّ نے مرد و عورت کا تذکرہ ان دس اوصاف میں   ایک دوسرے کے ساتھ فرما کر ان دونوں   کے درمیان ثواب و جزا کے لحاظ سے کوئی فرق نہ رکھا بلکہ برتری و بلندی میں   معیار عملِ صالح کو قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-   (پ۲۶،  الحجرات: ۱۳) 

ترجمۂ کنز الایمان: بیشک اللہ  کے یہاں   تم میں   زیادہ عزّت والا وہ جو تم میں   زیادہ پرہیزگار ہے۔

اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةًۚ-   (پ۱۴،  النحل: ۹۷) 

ترجمۂ کنز الایمان: جو اچھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور ہو مسلمان تو ضرور ہم اسے اچھی زندگی جِلائیں   گے۔

ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں   عمل صالح شرط ہے اور اس لحاظ سے مرد وعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں  ۔ نیز عورت کو اللہ  عَزَّ وَجَلَّ نے مرد کی تسکین کے لئے پیدا فرمایا اور اسے اپنی نشانیوں   میں   شمار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ  (۲۱)  ترجمۂ کنز الایمان: اور اس کی نشانیوں   سے ہے کہ تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ ان سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں   محبّت اور رحمت رکھی بیشک اس میں   نشانیاں   ہیں   دھیان کرنے والوں   کے لئے ۔    (پ۲۱،  الروم: ۲۱) 

 

 

معلوم ہوا کہ مرد و عورت کا تعلق محبت،  رحمت اور آرام وسکون کا باعث ہے،  یہ دونوں   ایک دوسرے سے وابستہ ہونے سے کامل اور ایک دوسرے کے بغیر ان کا وجود ناقص ہے۔الغرض اسلام نے عورت کو معاشرے میں   ایک مقام و مرتبہ دیا مگر یہ ایک المیہ ہے کہ آج غیر مسلم جب بھی عورت کے حقوق کی تاریخ مرتب کرتے ہیں   تو اس باب میں   اسلام کی تاریخی خدمات اور بے مثال کردار سے یکسر صرفِ نظر کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں  ۔ حالانکہ یہ بات اَظْہَر مِنَ الشَّمْس   (سورج کی طرح روشن)   ہے کہ اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی،  ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں   سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح   (بری)   رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں   اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں   اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں  ۔ اسلام نے مرد کی طرح عورت کوبھی عزت،  تکریم،  وقار اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جہاں   ہر فرد معاشرے کا ایک فعال   (مؤثر،  طاقتور)   حصہ ہوتا ہے اور ایسی بے شمار مثالیں   ہمارے سامنے موجود ہیں   کہ اسلامی معاشرے میں   عورتیں   شرعی تقاضوں   کے عین مطابق اسلام کے عطا کردہ حقوق کی برکات کے سبب سماجی،  معاشرتی،  سیاسی اور انتظامی میدانوں   میں   فعال کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو اِرتقا کی اَعلیٰ منازل کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنتی رہی ہیں   اور اِنْ شَآءَاللہ  عَزَّ  وَجَلَّ  بنتی رہیں   گی۔

 

Index