امام حسین کی کرامات

حق میں   دُعائے خیر فرماتے رہے۔ صبح کے وقت پھر اُ س جانب تشریف لے گئے تو نوجوان کو اپنے دروازے پر منتظر پایا۔ نوجوان نے بڑے پُرتپاک طریقے سے اِستقبال کرتے ہوئے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں   عرض کی: کیا آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو کل کی بات یاد ہے؟ حضرت سیِّدُنامالک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار نے ارشاد فرمایا: کیوں   نہیں   ! تو نوجوا ن ایک لاکھ دَراہم کی تھیلیاں   حضرت سیِّدُنامالک بن دینارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار کے حوالے کرتے ہوئے عرض گزار ہوا کہ یہ رہی میری پونجی اور یہ حاضر ہیں   قلم دوات اور کاغذ۔

            حضرت سیّدنا مالک بن دینارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّارنے کاغذ اور قلم ہاتھ میں   لے کر اِس مضمون کا بیع نامہ تحریر فرمایا:  بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم یہ تحریر اِس غرض کے لئے ہے کہ مالک بن دِینار فلاں   بن فلاں   کے لیے اِس کے دنیوی مکان کے عوض اللّٰہ تعالیٰ سے ایک ایسے ہی شاندار محل دِلانے کا ضامن ہے اور اگر اِس محل میں   مزید کچھ اور بھی ہو تو اللّٰہتعالیٰ کا فضل ہے۔ اِس ایک لاکھ دِرہم کے بدلے ، میں   نے ایک جنتی محل کا سودا  فلاں   بن فلاں   کے لیے کر لیا ہے جو اِس کے دُنیوی مکان سے زیادہ وسیع اور شاندار ہے اور وہ جنتی محل قربِ الٰہیعَزَّوَجَلَّکے سائے میں   ہے۔

            حضرت سیّدنا مالک بن دینارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّارنے یہ تحریر لکھ کر بیع نامہ نوجوان کے حوالے کر کے ایک لاکھ دَراہم شام سے پہلے پہلے فقرا و مساکین میں   تقسیم فرما دئیے۔ اِس عظیم عہد نامے کو لکھے ہوئے ابھی40روز بھی نہ گزرے تھے کہ نمازِ فجر کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے حضرت سیدنامالک بن دینارعَلَیْہ ِرَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّارکی نگاہ محرابِ مسجد پر پڑی، کیا دیکھتے ہیں   کہ اُس نوجوان کے لئے لکھا ہوا وہی کاغذ وہاں   رکھا ہے اور اُس کی پشت پر بغیر سیاہی(Ink)کے یہ تحریر چمک رہی تھی: اللّٰہُ عَزِیزٌحَکِیْم کی جانب سے مالک بن دینار کے لئے پروانہ برأ ت ہے کہ تم نے جس محل کے لیے ہمارے نام سے ضمانت لی تھی وہ ہم نے اُس نوجوان کو عطا فرما دیا بلکہ اِس سے70 گُنا زیادہ نوازا۔

            حضرت سیدنامالک بن دینارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار اِس تحریر کو لے کر باعُجلَت (یعنی جلدی سے)نوجوان کے مکان پر تشریف لے گئے، وہاں   سے آہ و فغاں   کاشور بلند ہو رہا تھا، پوچھنے پر بتایا گیا کہ وہ نوجوان کل فوت ہو گیا ہے، غسال نے بیان دیاکہ اُس نوجوان نے مجھے اپنے پاس بلایا اور وصیت کی کہ میری میّت کو تم غسل دینااور ایک کاغذ مجھے کفن کے اندر رکھنے کی وصیت کی۔ چنانچہ حسب وصیت اُس کی تدفین کی گئی۔ حضرت سیدنا مالک بن دینارعَلَیْہِرَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّارنے محرابِ مسجد سے ملا ہوا کاغذ غسال کو دکھایا تو وہ بے اختیار پکار اُٹھا: وَاللّٰہِ    الْعَظِیْم یہ تو وہی کاغذ ہے جو میں   نے کفن میں   رکھا تھا۔ یہ ماجرا دیکھ کر ایک شخص نے حضرت سیّدنامالک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار  کی خدمت میں   دولاکھ درہم کے عوض ضمانت نامہ لکھنے کی اِلتجا کی تو فرمایا: جو ہونا تھا وہ ہوچکا، اللّٰہ    عَزَّوَجَلَّ جس کے ساتھ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ حضرت سیّدنامالک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار اُس مرحوم نوجوان کو یاد کر کے اَشک باری فرماتے رہے۔ (روض الریاحین،ص۵۸)

جس کو خدائے پاک نے دی خوش نصیب ہے

کتنی عظیم چیز ہے دولت یقین کی

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                                       صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

شانِ اَولیا

                میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضرت سیّدنامالک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار حضرت سیّدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِیکے ہم عصر تھے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ پروردگار جَلَّ جَلَالُہٗ نے آپ  رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ   کو کتنا اِختیار عطا فرمایا کہ آپ نے دُنیوی مکان کے عوض جنتی محل کا سودا فرما لیا۔ واقعیاللّٰہرحمن عَزََّوَجَلَّکے و لیوں   کی بہت بڑی شان ہوتی ہے۔ شانِ اولیاء سمجھنے کے لیے یہ حدیث پاک ملاحظہ فرمائیے: چنانچہ سیّد الانبیا والمرسلین، جنابِ صادق و امینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ دِلنشین ہے: تھوڑا سا رِیا بھی شرک ہے اورجواللّٰہ    عَزَّوَجَلَّ کے ولی سے دشمنی کرے وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے لڑائی کرتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نیکوں   ، پرہیزگاروں   ،چھپے ہوؤں   کو دوست رکھتا ہے کہ غائب ہوں   تو ڈھونڈے نہ جائیں   ،حاضر ہوں   تو بُلائے نہ جائیں   ا ور اُن کو نزدیک نہ کیا جائے، اُن کے دِل ہدایت کے چراغ ہوں   ، ہر تاریک گرد آلود سے نکلیں   ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الرقاق،باب الریاء والسمعۃ،الفصل الثالث،۲ / ۲۶۹،حدیث ۵۳۲۸)

ہر نیک بندے کا احترام کیجئے

            مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّمیں   مقبولیت کا معیار شہرت و ناموری ہر گزنہیں   بلکہاللّٰہ    عَزَّوَجَلَّ   کی بارگاہ میں   تو مخلص بندے ہی مقبول ہوتے ہیں   اور یہ بھی ضروری نہیں   کہ ہر ولی کی ولایت کا شہرہ اور دُھوم دھام ہو۔ یہ حضرات معاشرے کے ہر طبقے میں   ہوتے ہیں   ۔ کبھی مزدور کے بھیس میں   ، کبھی سبزی اور پھل فروش کی صورت میں   ، کبھی تاجر یا ملازِم کی شکل میں   ، کبھی چوکیدار یامِعمار کے روپ میں   بڑے بڑے اولیا ہوتے ہیں   ، ہر کو ئی ان کی شناخت نہیں   کر سکتا، لہٰذا ہمیں   کسی بھی مسلمان کو حقیر نہیں   جاننا چاہئے۔ بلکہ بعض اولیائے کرام باقاعدہ اللّٰہ والے روحانی حاکم ہوتے ہیں   جو ’’روحانی نظام‘‘ سے مربوط(یعنی جڑے ہوئے) ہوتے ہیں   ۔ ان اللّٰہ والوں   کی نظر میں   دنیا کی رنگینیاں   ہیچ ہوا کرتی ہیں   ، یہ نفوسِ قدسیہ دنیا کے مقابلے میں   آخرت کو ترجیح دیتے ہیں   ۔ حتی کہ ان کے نزدیک دنیا کی کوئی وَقعت ہی نہیں   کیونکہ انہیں   دنیا کی بے ثباتی اچھی طرح معلوم ہوا کرتی ہے اور مَذَمت ِ دنیا کی احادیث مبارکہ اِن کے پیش نظر رہا کرتی تھیں   ۔ اِس ضِمْن میں   دُنیا کی مذمت پر مشتمل چند اَحادیث ِمبارکہ سماعت فرمایئے:  چنانچہ

{1آخرت کے مقا بلے میں   د نیا کی حیثیت

                حضرت سیّدنا مُستَورِدبن شداد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے مروی ہے کہ اللّٰہ     عَزَّوَجَلَّ کے محبوب، دانائے غیوب      صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: اللّٰہ     عَزَّوَجَلَّ کی قسم! آخرت کے مقابلے میں   دُنیا اتنی سی ہے جیسے کوئی اپنی اس اُنگلی کو سمندر میں   ڈالے تو وہ دیکھے کہ اس اُنگلی پر کتنا پانی آیا۔ (مسلم،کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمہا واہلھا،باب فناء الدنیا وبیان الحشر یوم القیامۃ، ص۱۵۲۹،حدیث۲۸۵۸)

            مُفَسّرِشہیر حکیم الامت حضر ت مفتی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان  فر ما تے ہیں   : یہ بھی فقط سمجھانے کے لئے ہے، ورنہ فانی اور مُتَناہی ( یعنی انتہاکو پہنچنے والے)کو باقی غیر

 

 

Index