امام حسین کی کرامات

سرِ انور کی عجیب بَرَکت

          منقول ہے:مِصر کے سلطان’’ مَلِک ناصِر’‘  کو ایک شخص کے مُتَعَلِّق اِطِّلاع دی گئی کہ یہ شخص جانتا ہے کہ اس مَحَل میں خزانہ کہاں دَفْن ہے مگر بتاتا نہیں ۔  سلطان نے اُگلوانے کیلئے اس کی تعذیب یعنی اَذیت دینے کا حکم دیا۔  متولّی تعذیب  (یعنی اذیت دینے پر مامور شخص ) نے اس کو پکڑا اور اس کے سر پر خَنافِس  (گُبریلے ) لگائے اور اس پرقِرمِز ( یعنی ایک طرح کے ریشم کے کیڑے  ) ڈال کر کپڑا باندھ دیا۔ یہ وہ خو ف ناک اَذِیت وعُقُوبت  (تکلیف ) ہے کہ اس کو ایک مِنَٹ بھی انسان برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس کا دِماغ پھٹنے لگتا ہے اور وہ فوراً راز اُگل دیتا ہے۔  اگر نہ بتائے تو کچھ ہی دیر کے بعد تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے ۔  یہ سزا اُس شخص کو کئی مرتبہ دی گئی مگر اس کو کچھ بھی اثر نہ ہوا بلکہ ہر مرتبہ خنافِس مر جاتے تھے۔  لوگوں نے اِس کا سبب پوچھاتو اس شخص نے بتایا کہ جب  حضرتِ امامِ عالی مقام،  سیِّدُناامامِ حُسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا سرِ مبارَک یہاں مِصر میں تشریف لایا تھا، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّمیں نے اس کوعقیدت سے اپنے سرپر اُٹھا یا تھا،  یہ اُسی کی بَرَکت اور کرامت ہے۔    (الخطط المقریزیۃ   ج۲ص۳۲۳ ،  شامِ کربلا ص۲۴۸ )

پھول زخموں کے کِھلائے ، ہیں ہوائے دوست نے

خون سے سینچا گیا ہے،  گُلْسِتانِ اہلِ بیت

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سر مُبارَک کی چمک دَمَک

          ایک روایت یہ بھی ہے کہ سرِانور یزیدِ پلید کے خزانہ ہی میں رہا۔  جب  بنواُمَیّہ کے بادشاہ سلیمان بن عبدُ الملک کا دَورِ حکومت (96ھ تا 99ھ ) آیا اور ان کو معلوم ہوا تو اُنہوں نے سرِ انور کی زیارت کی سعادت حاصِل کی،  اس وَقت سرِ انور کی مبارَک ہڈّیاں سفید چاندی کی طرح چمک رہی تھیں ،  اُنہوں نے خوشبو لگائی اور کفن دے کر مسلمانوںکے قبرِستان میں دَفْن کروادیا۔   (شام کربلا ص۲۴۹،  ابن عساکر ج۶۹ص۱۶۱ )

چِہرے میں آفتابِ نُبُوّت کا نور تھا

آنکھوں میں شانِ صَولتِ([1])سرکارِ بُو تُراب

رِضائے مصطَفٰے کا راز

 



[1]        دبدبہ

Index