امام حسین کی کرامات

سالار ) عمرو بن سعد کا شریک تھا وہ جہاں پایا جائے مار ڈالا جائے ۔  یہ حکم سُن کر کوفہ کے جَفاشِعار سُورما (یعنی ظالم و ناانصاف بہادُر ) بصرہ بھاگنا شروع ہوئے۔ مختار کے لشکر نے ان کا تَعاقُب (یعنی پیچھا ) کیا جس کو جہاں پایا ختم کر دیا ، لاشیں جَلا ڈالیں ،  گھرلُوٹ لیے۔ ’’ خولی بن یزید ‘‘ وہ خبیث ہے جس نے حضرتِ ا مامِ عالی مقام ،  سیِّدُنا امامِ حُسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا سرِمبارَک تنِ اقدس (یعنی جسمِ اقدس ) سے جُدا کیا تھا۔  یہ رُو سیاہ بھی گرِفتار کر کے مختار کے پاس لایا گیا، مختار نے پہلے اس کے چاروں ہاتھ پیر کٹوائے پھرسُولی چڑھایا،  آخرآگ میں جھونک دیا۔  اِس طرح لشکرِابنِ سعد کے تمام اَشرار  (یعنی شریروں  )کو طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کیا ۔ چھ ہزارکُوفی جو حضرتِ ا مامِ عالی مقام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے قتل میں شریک تھے ان کو مختار نے طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کر دیا۔

اے تِشنگانِ خونِ جوانانِ اہلِ بیت                   دیکھاکہ تم کو ظلم کی کیسی سزا ملی

کُتّوں کی طرح لاشے تمہارے سڑا کیے                        گُھورے([1]) پہ بھی نہ گور ([2])  کو تمہاری جا ملی

رُسوائے خَلق ہوگئے برباد ہوگئے           مردودو! تم کو ذلّتِ ہر دَوسرا مِلی

تم نے اُجاڑا حضرتِ زہرا کا بوستاں           تم خود اُجڑگئے تمہیں یہ بد دُعا ملی

دنیا پرستو! دین سے منہ موڑ کر تمہیں               دنیا ملی نہ عیش وطَرَ ب ([3])کی ہوا ملی

آخِر دکھایا رنگ شہیدوں کے خون نے             سرکٹ گئے اماں نہ تمہیں اِک ذر ا مِلی

پائی ہے کیا نعیم ؔاُنہوں نے ابھی سزا

دیکھیں گے وہ جحیم([4])میں جس دَم سزا مِلی

  (سَوانِحِ کربلا ص۱۸۱ )

سرِ اقدس کی تِلاوت

          صحابیِ رسول حضرتِ سیِّدُنا زَید بن اَرقَم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے: جب  یزیدیوں نے حضرتِ ا مامِ عالی مقام،  سیِّدُنا امامِ حُسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے سرِانور کو نیزے پر چڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا اس وَقْت میں اپنے مکان کے بالا خانہ  (یعنی اوپر والے حصّے)پر تھا۔  جب  سرِ مبارَک میرے



[1]      یعنی کچرا کونڈی  

[2]     یعنی قبر  

[3]     یعنی خوشی  

[4]     دوزخ کے ایک طبقے کا نام جَحِیم ہے۔

Index