امام حسین کی کرامات

وَالسَّلام نے نبیِّ رَحمت،  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    کے پاس آ کر یوں تعزیت کی:

اَلسَّلَامُ عَلَی الْوَلَدِ الطَّیِّبِ،  اَلسَّلَامُ عَلَی الْخَلْقِ الطَّیِّبِ،  اَعْظَمَ اللّٰہُ اَجْرَکَ وَ اَحْسَنَ عَزَاءَ کَ فِی ابْنِکَ الْحُسَیْنِ۔

’’سلام ہو پاکیزہ فطرت و خصلت والے پاک فرزند پر، اللہپاک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو بہت زیادہ ثواب عطا فرمائے اور آپ کے شہزادۂ گرامی حسین  (کے اس امتحان ) میں اَحسن یعنی بہترین صبر دے۔ ‘‘

         اسی طرح حضرتِ سیِّدُنا نُوح نَجیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ،  حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خلیلُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ، حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ، حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے بھی تعزیت فرمائی۔  پھر سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے چند کلمِات ارشاد فرمائے۔  پھر ایک فرِشتے نےاللہ پاک کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے قریب آکر عرض کی: اے ابو القاسِم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!   ( اس واقِعۂ ہائلہ سے ) ہمارے دل پاش پاش (یعنی ٹکڑے ٹکڑے ) ہو گئے ہیں ۔  میں آسمانِ دنیا پر مُوَکَّل  (مُ۔ وَک۔ کَل یعنی ذمیّ دار ) ہوں ۔  اللہ کریم نے مجھے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی اِطاعت (یعنی جیسا فرمائیں ویسا کرنے) کاحکم دیا ہے اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مجھے حکم فرمائیں تو میں ان لوگوں پر آسمان ڈھادوں اور ان کو تباہ و برباد کردوں ۔  پھر ایک اور فرِشتے نے آ کر عرض کی: اے ابو القاسِم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں دریاؤں پر مُوَکَّل (یعنی ذمیّ دار )ہوں ، اللہ پاک نے مجھے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِطاعت کا حکم دیا ہے اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرمائیں تو میں ان پر طوفان برپا کر کے ان کو تَہِس نَہِس  (یعنی برباد )کر دوں ۔  سرکار ِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا: اے فرشتو! ایسا کرنے سے باز رہو۔  حضرتِ سیِّدُنا حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  نے (سوئے ہوئے چوکیداروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  )عرض کی: نانا جان! یہ جو سوئے ہوئے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو میرے بھائی ( حُسین )کے سرِ انور کو لائے ہیں اور یِہی نگرانی پر بھی مقرَّر ہیں ۔  تو نبیِّ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا: ’’اے میرے رب کے فرِشتو!میرے بیٹے کے قتل کے بدلے میں ان کو قتل کر دو۔ ‘‘  تو خدا کی قسم ! میں نے دیکھاکہ چند

Index