امام حسین کی کرامات

          ایک نصرانی راہب  (یعنی کرسچین عبادت گزار )نے گرجا گھرسے سر انوردیکھا تو لوگوں سے پوچھا،  انہوں نے بتایا ،  راہب نے کہا: ’’تم بُرے لوگ ہو ، کیا دس ہزار اشرفیاں لے کر اس پر راضی ہو سکتے ہو کہ ایک رات یہ سر میرے پاس رہے ۔ ‘‘ ان لالچیوں نے قَبول کر لیا۔  راہِب نے سرِ مبارَک دھویا ، خوشبو لگائی ، رات بھر اپنی ران پر رکھے دیکھتا رہا،  ایک نور بلند ہوتا پایا ۔ راہِب نے وہ رات رو کر کاٹی،  صبح اسلام لایا اور گرجا گھر،  اس کا مال ومتاع چھوڑ کر اپنی زندگی اہلِ بیت کی خدمت میں گزار دی۔   (اَلصَّواعِقُ الْمُحْرِقۃ ص۱۹۹ )

دولتِ دیدار پائی پاک جانیں بیچ کر

کربلا میں خوب ہی چمکی دُکانِ اہلِ بیت

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!            صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دِرہم و دِینار ٹِھیکریاں بن گئے

      یزیدیوں نے لشکرِ امام عالی مقام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور ان کے خیموں سے جو دِرہم و دِینار لوٹے تھے اور جو راہب سے لیے تھے اُن کو تقسیم کرنے کیلئے جب  تھیلیوں کے مُنہ کھولے تو کیا دیکھا کہ وہ سب دِرہم و دِینار ٹھیکریاں بنے ہوئے تھے اور اُن کے ایک طرف  (پارہ 13 سُوْرَۃُ اِبْرٰاھِیْم  کی آیت 42 ) وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ  (ترجَمۂ کنزالایمان: اور ہرگزااللہ (پاک ) کوبے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔  ) اور دوسری طرف  (پارہ19 سُوْرَۃُ الشُّعَرَآءکی آیت227 ) وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۠(۲۲۷) (ترجَمۂ کنزالایمان: اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔  ) تحریر تھی۔    ( اَیْضاً ص۱۹۹  )

تم نے اُجاڑا حضرتِ زَہرا کابوستاں تم خود اُجڑ گئے تمہیں یہ بددعا ملی

رُسوائے خَلق ہو گئے برباد ہو گئے مَردودو! تم کو ذلّتِ ہر دَوسَرا ملی

        اے عاشِقانِ صحابہ و اہلِ بیت !یہ قدرت کی طرف سے ایک درسِ عبرت تھا کہ بدبختو! تم نے اِس فانی دنیا کی خاطِر دین سے مُنہ موڑا اور اٰلِ رسول  پر ظلم و ستم کاپہاڑ توڑا۔  یا د رکھو! دین سے تم نے سخت بے پروائی برتی اور جس فانی و بے وفا دُنیا کے حُصول کے لئے ایسا کیا وہ بھی تمہارے ہاتھ نہیں آئے گی اور تم خَسِرَالدُّنْیَاوَالْٰاخِرَۃ  (یعنی

Index