امام حسین کی کرامات

دنیا میں بھی نقصان اور آخِرت میں بھی نقصان  )  کا مصداق ہو گئے ۔    ؎

دنیا پرستو دین سے منہ موڑ کر تمہیں                 دنیا ملی نہ عَیش و طَرَب کی ہوا ملی

        تاریخ شاہِد ہے کہ مسلمانوں نے جب  کبھی عَمَلاً دین کے مقابلے میں اِس فانی دنیا کو ترجیح دی تو اس بے وفا دنیا سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور جنہوں نے اس فانی دنیا کو لات مار دی اور قراٰن وسنّت کے احکامات پر مضبوطی سے قائم رہے اور دین و ایمان سے منہ نہیں موڑا بلکہ اپنے کردار و عمل سے یہ ثابت کیا   ؎

سر کٹے،  کنبہ مرے،  سب کچھ لٹے            دامنِ احمد ہاتھوں سے چھٹے

        تو دنیا ہاتھ باندھ کر ان کے پیچھے پیچھے ہو گئی اور وہ دارَین (یعنی دونوں جہانوں  ) میں سر خ رو (یعنی کامیاب ) ہوئے۔  میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :    ؎

وہ کہ اس در کا ہوا،  خلقِ خدا اُس کی ہوئی

وہ کہ اس در سے پھرا،  اللہ  اُس سے پھر گیا

سر انور کہاں مدفون ہوا؟

    امامِ عالی مقام ،  حضرتِ سیِّدُنا امامِ حُسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے سرِانور کے مدفن  (یعنی دفن ہونے کی جگہ  )کے بارے میں اِختِلاف ہے۔  ’’طبقاتِ ابن سعد’‘  میں ہے :امامِ عالی مقام امامِ حُسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے سرِانورکو جنت البقیع شریف میں حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمہ زَہرا کے پہلو  (Side )میں دَفْن کر دیا گیا۔    (طبقاتِ ابنِ سعد ج۵ ص۱۸۴ )  بعض کا کہنا ہے کربلا میں سرِانورکوجَسَدِ مبارَک سے ملا کر دَفْن کیا۔   (تذکرۃ الخواص ج ص۲۶۵ )  بعض کہتے ہیں کہ: ’’یزید نے حکم دیا تھا کہ امام حُسین  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے سرِانور کو شہروں میں پھراؤ۔  پھرانے والے جب  عسقلان پہنچے تو وہاں کے امیر نے اُن سے لے کر دَفْن کردیا۔ ‘‘ بعض کہتے ہیں کہ ’’جب  عسقلان پر فرنگیوں  (یعنی یورپیوں  )کا غلبہ ہوا تو طلائع بن رزیک جس کو صالح کہتے ہیں ،  نے تیس ہزار دینار دے کر فرنگیوں سے سرِ انور لینے کی اجازت حاصِل کی اور مع فوج و خُدَّام ننگے پاؤں وہاں سے 8 جُمادی الآخر  548 ھ بروز اتوار مِصْر میں لایا۔  اُس

Index