تعارف امیر اہلسنت

مقبولیت کی سند حاصل ہے۔چُنانچہ حیدرآباد (باب الاسلام سندھ) کے مُبَلِّغ دعوتِ اسلامی عبدالقادرعطاری علیہ رحمۃ   اللہ  الباری نے ایک بار خواب میں سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی زیارت کی ۔آپصَلَّی   اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے لب ہائے مبارکہ کو جنبش ہوئی اور رحمت کے پھول جھڑنے لگے اور الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے :  الیاس قادِری کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ جوتم نے الوداع تاجدار مدینہ والا قصیدہ لکھا ہے وہ ہمیں بَہُت پسند آیا ہے اور کہنا کہ اب کی بار جب مدینے آؤتو کوئی نئی الوداع لکھنا اور ممکن نہ ہو تو وہی الوداع سُنادینا۔   

(آپ کے سوزوگداز سے لبریز کلام کامجموعہ ارمغانِ مدینہ اور مغیلانِ مدینہ مکتبۃُ المدینہ کی کسی بھی شاخ سے ھدِیّۃ طلب کیا جاسکتا ہے۔)

 اِتباعِ سنّت

        رحمتِ عالم، نورِ مجسّم ، شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا : ’’جس نے میری سنت کو زندہ کیااس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا ۔‘‘(جامع الترمذی ، کتاب العلم ، باب ما جاء فی الاخذ ۔۔۔۔الخ، الحدیث ۲۶۸۷، ج۴ ، ص۳۰۹، دار الفکربیروت)

        اَمیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکا دِل اتباع سنّت کے جذبہ سے معمور و سرشار ہے۔ آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہنہ صرف خود سنّتوں پر عمل کرتے ہیں بلکہ دیگر مسلمانوں کو بھی زیور سنّت سے آراستہ کرنے میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں ۔آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہبسا اوقات ایسی ایسی سنّتوں پر عمل کرلیتے ہیں کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں اور کیوں نہ ہو جس کو واقعی سنّتوں کا درد ہوتا ہے اس کو   اللہ  تبارک و تعالیٰ مَدَ نی سوچ عطا فرمادیتا ہے۔

چٹائی کا بچھونا :

        آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اتباعِ سنّت کی نیت سے کبھی فرش پرلیٹتے ہیں توکبھی چٹائی پر۔آپ نے اپنے سونے کے لیے نہ تواپنے گھرمیں کوئی گدیلارکھاہے نہ ہی پلنگ، البتہ جب کسی کے گھرتشریف لے جاتے ہیں اوروہاں اگرسونے کی نوبت آتی ہے تومیزبان جس قسم کابچھوناپیش کرتاہے اسی پرآرام فرمالیتے ہیں ۔اس میں بھی اتباعِ سنت ہی کی جلوہ نمائی ہے کیونکہ حدیثِ پاک میں آتاہے کہ سرکارِ مدینہصَلَّی   اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے کبھی بچھونے میں عیب نہیں نکالا۔(وسائل الوصول الی شمائل الرسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ص۱۲۳، دارالمنہاج بیروت)

مسواک کے لئے الگ جیب :

        امیر اہل سنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکے کُرتے میں سینے کی طرف دو جیبیں ہوتی ہیں ۔ مسواک شریف رکھنے کیلئے آپ سینے کی اُلٹی جانب والی جیب کے برابر ایک چھوٹی سی جیب بنواتے ہیں ۔اس کی وجہ آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہنے یہ ارشاد فرمائی :  میں چاہتا ہوں کہ یہ آلۂ ادائے سنّت میرے دل سے قریب رہے۔

  حُسنِ اخلاق

        حضرت سیدناابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُروایت کرتے ہیں کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی   اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا، ’’میزانِ عمل میں حسن اخلاق سے وزنی کوئی اورعمل نہیں ۔ ‘‘(الادب المفرد ، باب حسن الخلق ، الحدیث ۲۷۳، ص۹۱، مدینۃ الاولیاء ملتان)

          اللہ  تَعَالٰی نے امیرِ اہلِسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکواخلاقِ حسنہ کی نعمت سے مالامال کیا  ہے ، آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہچھوٹے بڑے سبھی سے نہایت خندہ پیشانی اور پُرتپاک طریقے پر ملتے ہیں اور ایسے مواقع جہاں اکثر لوگ غصے سے بے قابو ہوجاتے ہیں وہاں آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہمسکراتے رہتے ہیں ۔   

کمالِ ضبط کا مظاہرہ :

         یہ ان دنوں کی بات ہے جب دعوتِ اسلامی کا ہفتہ وار سنتوں بھرا اجتماع دعوتِ اسلامی کے اوّلین مدنی مرکز’’گلزارِ حبیب مسجد ‘‘گلستانِ شفیع اوکاڑوی(سولجر بازار) باب المدینہ کراچی میں ہوتا تھا ۔ قبلہ اَمیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اجتماع میں شرکت کے لئے اسلامی بھائیوں کے ساتھ جب سنیما گھر کے قریب سے گزرے توایک نوجوان جو فلم کا ٹکٹ لینے کی غرض سے قِطار میں کھڑا تھا اس نے (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) بلند آواز سے اَمیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکو مخاطب کر کے کہا :  ’’مولانا بڑی اچھی فلم لگی ہے آکر دیکھ لو۔‘‘ اس سے پہلے کہ آپ کے ہمرا ہ اسلامی بھائی جذبات میں آکر کچھ کرتے اَمیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہنے بلند آواز سے سلام کیا اورقریب پہنچ کر بڑی ہی نرمی کے ساتھ انفرادی کوشش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، کہ بیٹا میں فلمیں نہیں دیکھتاالبتہ آپ نے مجھے دعوت پیش کی تو میں نے سوچا کہ آپ کو بھی دعوت پیش کروں ، ابھی ان شاء   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ گلزارِ حبیب مسجد میں سنتوں بھرا اجتماع ہو گا ، آپ سے شرکت کی درخواست ہے، اگرآپ ابھی نہیں آسکتے توپھر کبھی ضرور تشریف لائیے گا ۔ پھر آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہنے اسے ایک عطر کی شیشی تحفہ میں پیش کی ۔     

        چندسالوں بعد اَمیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی بارگاہ میں سنتوں کے عامل ایک اسلامی بھائی سبز عمامہ سجائے حاضر ہوئے اور کچھ اس طرح سے عرض کی ، حضور چند سال قبل ایک نوجوان نے آپ کو(مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) فلم دیکھنے کی دعوت دی تھی اور آپ نے کمالِ ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناراض ہونے کے بجائے اجتماع میں شرکت کی دعوت پیش کی تھی وہ نوجوان میں ہی ہوں ۔ میں آپکے عظیم حسنِ اخلاق سے بیحد متاثر ہوا اور ایک دن اجتماع میں آگیا، پھر آپ کی نظرِ کرم ہو گئی اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ  عَزَّ وَجَلَّ! میں گناہوں سے توبہ کرکے مدنی ماحول سے وابستہ ہو گیا ۔

 عفو ودرگزر

        حضرت سیدنا عقبہ بن عامررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ میں رحمت ِ عالم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں حاضر ہوا توحضورسرورِکونین صَلَّی   اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھ سے ارشادفرمایا :  ’’جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو، جو تمہیں محروم کرے اُسکو عطا کرو اورجو تم پر ظلم کرے تم اُسے معاف کرو۔‘‘

(المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث عقبہ بن عامر ، الحدیث۱۷۴۵۷، ج۶ص۱۴۸، دارالفکر بیروت)

ناراض پڑوسی :

 

Index