تعارف امیر اہلسنت

(مسلم کتاب الایمان ، باب بیان الدین النصیحۃ ، الحدیث ۵۵، ص۴۷)

        ہمارا حسنِ ظن ہے کہ مسلمانوں کی خیر خواہی ہمہ وقت امیرِ اہلِ سنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکے پیشِ نظر رہتی ہے ۔ اس ضمن میں کئی واقعات ہیں ، جس میں سے ایک پیشِ خدمت ہے ۔ 

سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئے :

        اَلْحَمْدُلِلّٰہِ  عَزَّ وَجَلَّ! جشن ولادت ِ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سلسلے میں ربیع النورشریف کی ۱۲ ویں شب، دعوت اسلامی کی طرف سے باب المدینہ (کراچی) میں بہت بڑے اجتماع ِ ذکر ونعت کا انعقاد کیا جاتا ہے جوغالباً اس وقت روئے زمین کا سب سے بڑا اجتماعِ ذکرو نعت ہوتا ہے۔ ربیع النور شریف۱۴۱۸؁ھ کی ۱۲ ویں رات ۱۲ بجے جب بانیٔ دعوت ِ اسلامی امیر اہلسنت مدظلہ العالی اجتماع میں بیان کرنے کیلئے پہنچے تو تلاوت شروع ہوچکی تھی۔لہٰذاآپ منچ (اسٹیج )پر جلوہ گر ہوکر حاضرین کے سامنے آنے کی بجائے منچ کی سیڑھیوں پرہی بیٹھ کر تلاوت سننے میں مشغول ہوگئے۔تلاوت ختم ہونے کے بعد جب کسی نے عرض کی کہ’’ آپ براہ راست منچ پر تشریف لانے کے بجائے اس کی سیڑھی پر بیٹھ گئے، اس میں کیا حکمت تھی؟‘‘تو ارشاد فرمایا :  قرآن پاک میں ہے کہ

وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ

ترجمہ کنز الایمان : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔‘‘۹، الاعراف : ۲۰۴)

اور …    ’’فتاویٰ رضویہ‘‘۲۳، ص۳۵۳) میں ہے ، ’’جب بلند آواز سے قرآن پاک پڑھا جائے تو حاضرین پر سننا فرض ہے جبکہ وہ مجمع سننے کی غرض سے حاضر ہو، ورنہ ایک کا سننا کافی ہے اگرچہ دوسرے لوگ کام میں ہوں ۔‘‘

        پھر فرمایا : ’’جب میں حاضر ہوا تو تلاوت جاری تھی، اب اگر میں سیدھا منچ پر چلا جاتا تو خدشہ تھا کہ کوئی اسلامی بھائی استقبالی نعرہ لگا دیتا اور دوران ِتلاوت ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہئے، لہٰذا! میں نے لوگوں کی نظر سے اوجھل رہ کر منچ کی سیڑھیوں پر بیٹھ جانے ہی میں عافیت جانی۔‘‘

فکر آخرت

                 ایک مرتبہ رات بھر مَدَنی مشورے کے باعث  امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہسو نہ سکے۔ بعد ِ فجر ایک اسلامی بھائی نے عرض کی : ’’ ابھی آپ آرام فرمالیں ، 10:00 بجے دوبارہ اٹھنا ہے، لہٰذا! اٹھ کر اشراق و چاشت ادا فرمالیجئے گا۔‘‘آپ نے جواب دیا کہ’’ زندگی کا کیا بھروسا، سوکر اٹھنا نصیب ہویا نہیں۔ ۔ یا۔۔ کیا معلوم آج زندگی کے آخری نفل ادا ہورہے ہوں ؟‘‘ یہ فرمانے کے بعد اشراق و چا شت کے نفل ادا فرمائے پھر آرام فرمایا۔

مدنی کام کی لگن

        ۹۹۱اء میں راہِ خدا  عَزَّ وَجَلَّ میں سفر کرتے ہوئے جب امیرِ اہلِسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہھند کے شہر دہلی میں پہنچے تو وہاں جامع مسجد نورُ النبی میں قیام کیا ۔طویل سفر کی تھکن کی وجہ سے اکثر شرکائے قافلہ عشاء کے بعد بہت جلد نیند کی آغوش میں پہنچ گئے لیکن آپ شدید تھکاوٹ کے باوجود آدھی رات تک وہاں پر ملاقات کی غرض سے آنے والے اسلامی بھائیوں پر انفرادی کوشش فرماتے رہے ۔

نفس کی قربانی :

         امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ۱۴۲۴ھ میں عیدالاضحی کے موقع پر ملک سے باہر تھے ۔بعض ذمہ دارانِ دعوتِ اسلامی کے بے حد اصرار پر آپ نے عیدالاضحی پاکستان میں منانے کی حامی بھر لی لیکن عید سے صرف چند روز پہلے ای میل کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا : ’’شبِ جمعہ ( ۸ ذوالحجۃ الحرام ۱۴۲۴ہ) کو پر واز تھی ، بدھ کو دل میں ہلچل پیدا ہوگئی ۔ میں نے بہت غور کیا اوراس نتیجے پر پہنچا کہ میں عید باب المدینہ میں آکر دھوم دھام سے خوب رو نق بھرے ماحول میں بچوں ، گھر والوں اور کثیر اسلامی بھائیوں کے ساتھ مناؤں ۔ باب المدینہ آنے میں نفس کی پیروی ہے اور امارات میں رہ کر تحریری کام کرنے میں آخرت کی بہتری ، باب المدینہ میں عوام کی بھیڑ میں گناہوں کی کثرت اور امارات میں تنہائی کے باعث معا صی سے کافی بچت، عوام کی گہماگہمی میں زبان وآنکھ کی حفاظت نہایت ہی مشکل جبکہ امارات میں اپنے گھر پر زبان اور آنکھوں کا قفل مدینہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ  عَزَّ وَجَلَّکافی حد تک حاصل ۔ سو چا فی الحال باب المدینہ میں جاکر سوائے نفس کو خوش کر نے کے کسی دین کے اہم کام کو سر انجام دینے کی بظاہر کوئی صورت سامنے نہیں ہے ، قربانی کے دن ہیں ، اور ظاہر ہے قربانی وہی ہے جو نفس کوگراں گزرے ، لہٰذا! نفس کی قربانی دینا  ہی مناسب ہے ، لہٰذا! آخِرت کی بہتری پر نظر رکھتے ہوئے میں نے باب المدینہ آنے کا ارادہ ملتوی کردیا ہے ۔

وقت کم کام بہت زیادہ :

         دسمبر2002ء میں راجپوتانہ ا َسپتال(حیدرآباد، باب الاسلام سندھ) میں امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکاآپریشن تھا۔ آپ نے آپریشن تھیٹر میں جانے کیلئے لباس پہن لیا، مگر پھر اطّلاع ملی کہ ابھی ایک گھنٹہ مزید تاخیر ہوگی۔آپ سے عرض کی گئی کہ کچھ دیر آرام فرمالیجئے ، مگرآپ نے ارشاد فرمایا :  ’’وقت کم ہے اور کام بہت زیادہ ہے۔‘‘ یہ فرماکر آپ تحریری کام میں مصروف ہوگئے۔

شاعری

         اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی طرح  امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکا سرمایہ شاعری بھی صرف نعت و منقبت اور مناجات وغیرہ پر مشتمل ہے۔جو اسلامی بھائی  امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی شب و روز کی مصروفیات سے واقف ہیں وہ حیرت زدہ ہیں کہ آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکو شعر کہنے کا موقع کیسے مل جاتا ہے ؟ پھر آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہدیگر ارباب سخن کی طرح

Index