تعارف امیر اہلسنت

کرنے کی عادت ہے مگر مَجاز(یعنی بااختیار)نہ ہونے کے باعث مُجتَنِب (یعنی رکا)رہا مگر بے احتیاطی کے سبب ایک صفحہ کے اوپر کی جانب معمولی سا کاغذ پھٹ گیا، بصد نَدامت معذرت خواہ ہوں ، امّید ہے مُعافی کی خیرات سے مَحروم نہیں فرمائیں گے۔ کاغذ اتنا کم شق ہوا ہے کہ غالِباً ڈھونڈنے پر بھی نہ مل سکے۔ عِلاوہ اَزِیں بھی جو حُقوق تَلَف ہوئے ہوں مُعاف فرمادیجئے۔ دَین ہوتو وصول کرلیجئے(یعنی میری طرف آپ کی کوئی رقم وغیرہ بنتی ہو تو لے لیجئے)۔دعائے مغفِرت سے نوازتے رہئے۔ والسلام مع الاکرام

دورانِ بیان معافی طلب کرنا :

        کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ خوفِ خدا  عَزَّ وَجَلَّ کے سرمایہ سرمدی کی بنا پرامیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہنے حقوق العباد میں حد درجہ محتاط ہونے کے باوجود دورانِ بیان بھی لوگوں سے ان کے حقوق کے بارے میں معذرت طلب کی۔ چنانچہ باب الاسلام سندھ سطح پر۲، ۳، ۴ محرم الحرام ۱۴۲۵ھ کو ہونے والے سنتوں بھرے اجتماع میں ہونے والے بیان کے دوران آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے توبہ کی شرائط کی وضاحت کرتے ہوئے وہاں موجود لاکھوں اسلامی بھائیوں اورٹیلی فون وغیرہ کے ذریعے سننے والی اسلامی بہنوں سے ارشاد فرمایا : ’’توبہ کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس کی حق تلفی کی ہو یا اذیت پہنچائی ہو اس سے معافی مانگی جائے ، جس کے تعلقات جتنے زیادہ ہوتے ہیں اتنا ہی دوسروں کی دل آزاری ہوجانے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے ، اور میرے تعلقات یقینا آپ سب سے زیادہ ہیں ، لہٰذا میری درخواست ہے کہ میری طرف سے اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچی ہو ، کوئی حق تلف ہوگیا ہو، کبھی ڈانٹ دیا ہو، ملاقات نہ کرنے پر آپ ناراض ہوگئے ہوں ، تو ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے مجھے معاف کر دیجئے ، مجھے آپ سے نہیں اپنے رب تعالیٰ سے ڈر لگتا ہے ، کہہ دیجئے : ’’جا معاف کیا۔‘‘

بیعت وارادت

        امامِ اہلِسنّت مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنسے بے حد عقیدت کی بنا پر امیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکوآپ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنکے سلسلے میں داخل ہونے کا شوق پیدا ہوا ۔جیسا کہ امیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہخود لکھتے ہیں : ’’(مرید ہونے کے لئے)  ایک ہی ’’ہستی‘‘ مرکز توجہ بنی ، گومشائخِ اہل ِسنت کی کمی تھی نہ ہے مگر     

       ؎    پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا

        اس مقدس ہستی کا دامن تھام کر ایک ہی واسطے سے اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنسے نسبت ہوجاتی تھی اور اس ’’ہستی‘‘ میں ایک کشش یہ بھی تھی کہ براہِ راست گنبدِ خضرا کا سایہ اُس پر پڑ رہا تھا۔اس ’’مقدس ہستی‘‘ سے میری مراد حضرت شَیخُ الفضیلت آفتابِ رَضَویت ضیاء الْمِلَّت، مُقْتَدائے اَہلسنّت، مُرید و خلیفہ ٔ اعلیٰ حضرت، پیرِ طریقت، رَہبرِ شَرِیْعَت ، شَیخُ العَرَب و العَجَم، میزبانِ مہمانانِ مدینہ ، قطبِ مدینہ ، حضرت علامہ مولٰینا ضیاء الدین اَحمد مَدَنی قادِری رَضَوی علیہ رحمۃ   اللہ  القوی کی ذات گرامی (ہے) ۔

ضیاء پیر ومرشد مِرے رہنما ہیں   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ

سُرورِ دل وجاں مِرے دل رُبا ہیں

مُنوَّر کریں قلبِ عطّارؔ کو بھی                                                           

شہا! آپ دین مبیں کی ضِیا ہیں                                                          

خلافت و اجازات

        امیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ، مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی وقار الدین قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے خلیفہ ہیں ۔آپ کو شارح بخاری، فقیہ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی علیہ رحمۃ  اللہ  الغنی نے سلاسلِ اربعہ قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ اور سہروردیہ کی خلافت و کتب و احادیث وغیرہ کی اجازت بھی عطا فرمائی، جانشین سیدی قطبِ مدینہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب اشرفی علیہ رحمۃ  اللہ  القوی نے بھی اپنی خلافت اور حاصل شدہ اسانید و اجازات سے نوازا ہے۔ دنیائے اسلام کے اور بھی کئی اکابر علماء و مشائخ سے آپ کو خلافت حاصل ہے۔

بَیْعَتْ وارشاد

        امیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہخلافت ووکالت ملنے کے باوجود ایک عرصے تک برائے تواضع و انکساری کسی کو اپنا مرید نہیں بناتے تھے بلکہ اپنے ذریعے سے پیر و مرشِدکا ہی مرید بناتے تھے ۔پیر و مرشِدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے وِصال کے بعدآپ نے بَیْعَتْ کرنا شروع فرمایا ، تو لوگ آپ کے ذریعے سلسلہ عالیہ قادِریہ رَضَویہ عطاریہ میں داخل ہوکر عطاریؔ بننے لگے۔پھربعد میں اَکابرین کے طریقے کو اپناتے ہوئے بڑے بڑے سنّتوں بھرے اجتماعات میں بھی آپ نے اجتماعی بَیْعَتْ کا سلسلہ شروع فرمایا جیسا کہ شہزادۂ اعلیٰ حضرت مصطفی رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنبھی اجتماعی بَیْعَتْ فرماتے تھے۔

مریدوں پر شفقت

         امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکو سالہاسال سے کثرت ِ پیشاب کا عارضہ لاحق تھا۔ بالآخردسمبر 2002ء میں ڈاکٹروں نے آپریشن تجویز کیا جس کے لئے آپ ہی کے مطالبے پر نمازِ عشاء کے بعد کا وقت طے کیا گیا تاکہ آپ کی کوئی نماز قضانہ ہونے پائے ۔ آپریشن ہوجانے کے بعد نیم بے ہوشی کے عالم میں درد سے کراہنے یا چلانے کی بجائے آپ نے وقتاً فوقتاً جن کلمات کی بار بار تکرار کی وہ یہ تھے :

        ’’سب لوگ گواہ ہوجاؤمیں مسلمان ہوں ، …یا  اللہ  عَزَّ وَجَلَّ! میں مسلمان ہوں ، میں تیرا حقیر بندہ ہوں ، … یارسول  اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ! میں آپ کا ادنیٰ غلام ہوں ، …اَلْحَمْدُلِلّٰہِ  عَزَّ وَجَلَّ !  میں غوث الاعظم (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) کا غلام ہوں ، …اے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ ! میرے گناہوں کو بخش دے، … اے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ! میری مغفرت فرما، … اے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ ! میرے ماں باپ کی مغفرت

Index