تعارف امیر اہلسنت

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ   اللہ  الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

دُرُودِ پاک کی فضیلت

        سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروَرْدْگار صَلَّی   اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ رحمت نشان ہے : ’’اے لوگو! بے شک بروز قِیامت اسکی دَہشتوں اورحساب کتاب سے جلد نجات پانے والا شخص وہ ہوگا جس نے تم میں سے مجھ پر دنیا کے اندر بکثرت دُرُود شریف پڑھے ہوں گے ۔‘‘     

(فردوس الاخبار ، الحدیث ۸۲۱۰ ، ج۲ ، ص ۴۷۱مطبوعہ دارالفکر بیروت)

تعارفِ امیرِ اہلِسنّت مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی

        شیخ طریقت، اَمیراَہلسنّت ، بانی ٔ دعوتِ اسلامی، حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادِری رَضَویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی ولادت مبارکہ ۲۶ رَمَضانُ المبارَک ۱۳۶۹ھ بمطابق  ۱۹۵۰ء میں پاکستان کے مشہور شہر باب المدینہ کراچی میں ہوئی۔

آپ کے آباء واجداد

         امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکے آباء واجدادہند کے گاؤں ’’کُتیانہ(جُوناگڑھ)‘‘ میں مقیم تھے۔ آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکے دادا جان عبدالرحیم علیہ رحمۃ   اللہ  الکریم کی نیک نامی اورپارسائی پورے ’’کتیانہ ‘‘ میں مشہور تھی ۔جب پاکستان مَعْرِضِ وُجود میں آیا تو امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکے والدین ماجدین ہجرت کرکے پاکستان تشریف لےآئے۔ ابتدا میں بابُ الاسلام (سندھ) کے مشہور شہر حیدرآبادمیں قِیام فرمایا۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد بابُ الْمدینہ (کراچی) میں تشریف لائے اور یہیں سُکُونَتْ پذیرہوئے ۔

والدِ محترم

        امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکے والدِبُزُرگوارحاجی عبدالرَحمن قادِری علیہ رحمۃ   اللہ  الھادی باشرع اور پرہیز گارآدمی تھے ۔ اکثر نگاہیں نیچی رکھ کر چلا کرتے تھے ، انہیں بہت سی احادیث زبانی یاد تھیں ۔ دنیاوی مال ودولت جمع کرنے کا لالچ نہیں تھا۔آپ علیہ رحمۃ   اللہ  الھادی سلسلۂ عالیہ قادِریہ  میں بیعت تھے۔

قصیدۂ غوثیہ کی برکت :

         1979ء میں جب شَیخِ طریقت امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ’’کولمبو‘‘ تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں کو والدصاحب سے بَہُت متأثر پایاکیونکہ انہوں نے وہاں کی عالیشان حَنَفی میمن مسجد کے انتظامات سنبھالے تھے اور اس مسجد کی کافی خدمت بھی کی تھی۔کولمبو میں قیام کے دوران امیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکے خالو نے دورانِ گفتگو آپ کو بتایا کہ ’’ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جب کبھی چار پائی پر بیٹھ کر آپ کے والد صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ’’قصیدئہ غوثیہ‘‘  پڑھتے تو ان کی چار پائی زمین سے بلند ہو جاتی تھی۔‘‘( سُبحٰن   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ)

سفرِ حج کے دوران انتقال :

         امیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہعالَمِ شِیْر خوارگی ہی میں تھے کہ آپ کے والد ِمحترم ۱۳۷۰ھ میں سفرِ حج پر روانہ ہوئے ۔ایامِ حج میں منٰی میں سخت لُو چلی جس کی وجہ سے کئی حجاج کرام فوت ہوگئے، ان میں حاجی عبدالرحمن علیہ رحمۃ المنّان بھی شامل تھے جو مختصر علالت کے بعد ۱۴ذوالْحِجَّۃ  الحرام ۱۳۷۰ھ کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ

        اَلْحَمْدُلِلّٰہِ  عَزَّ وَجَلَّ!حاجی عبدالرحمن علیہ رحمۃ المنان کس قدر خوش نصیب تھے کہ وہ سفرِ حج کے دوران اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔سفرِحج کے دوران انتقال کرجانے والے کے بارے میں رحمت ِ کونینصَلَّی   اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا : ’’جو حج کیلئے نکلا اور مرگیا قیامت تک اس کیلئے حج کا ثواب لکھاجائے گا اور جو عمرہ کیلئے نکلا اور مرگیا اس کیلئے قیامت تک عمرے کا ثواب لکھاجائیگا اور جو جہاد میں گیا اور مرگیا اس کیلئے قیامت تک غازی کا ثواب لکھاجائیگا۔‘‘ (المعجم الاوسط، الحدیث ۵۳۲۱، ج۴ص۹۳، دار الفکر بیروت)

        ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ، ’’ جو اس راہ میں حج یا عمر ہ کیلئے نکلا اور مرگیا اس کی پیشی نہیں ہوگی ، نہ حساب ہوگا اس سے کہاجائے گا توجنت میں داخل ہو۔‘‘

(مسند ابی یعلیٰ الموصلی ، مسند عائشہ، الحدیث ۴۵۸۹، ج۴، ص۱۵۲، دار الکتب العلمیۃ بیروت)

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند

سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے

 

Index