تعارف امیر اہلسنت

ذوق بڑھتا رہے اشک بہتے رہیں           مضطرب قلب اور چشم ترچاہیئے

    گر وہ فرمائیں عطّارؔ کیا چاہئے                میں کہوں گا مدینے کا غم چاہئے   

سادگی

         امیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہعموماً سادہ اور سفید لباس بغیر استری کے استعمال کرنا پسندفرماتے ہیں جبکہ سر پر چھوٹے سائز کا سادہ سبز عمامہ باندھتے ہیں ۔اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ’’میں عمدہ لباس پہننا پسند نہیں کرتا حالانکہ میں   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کے کرم سے بہترین لباس پہن سکتا ہوں ۔ مجھے تحفے میں بھی لوگ نہایت قیمتی اورچمکدار قسم کے کپڑے دے جاتے ہیں لیکن میں خود پہننے کی بجائے کسی اور کو دے دیتا ہوں کیونکہ ایک تو میرے مزاج میں   اللہ  تَعَالٰی نے سادگی عطا فرمائی ہے ، دوسرا میرے پیچھے لاکھوں لوگ ہیں اگر میں مہنگے ترین لباس پہنوں گا تو یہ بھی میری پیروی کرنے کی کوشش کریں گے ۔ مالدار اسلامی بھائی تو شایدپیروی کرنے میں کامیاب ہوبھی جائیں لیکن میرے غریب اسلامی بھائی کہاں جائیں گے اس لئے میں اپنے غریب اسلامی بھائیوں کی محبت میں عمدہ لباس پہننے سے کتراتا ہوں ۔‘‘

 محبت ِرمضان

        حضرت ِ سیدنا ابوہریرہ رضی   اللہ  تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول   اللہ  صلی   اللہ  تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :  ’’یہ مہینہ تمہارے قریب آگیا ، خدا  عَزَّ وَجَلَّ کی قسم ! مسلمانو ں پر کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرا جو اِن کے لئے اس مہینہ سے بہتر ہو اور منا فقین پر کوئی ایسا مہینہ نہیں گزرا جو اِن کے لئے اس مہینے سے بد تر ہو۔

(صحیح ابن خزیمہ ، کتاب الصیام ، با ب فی فضل شہر رمضان ، الحدیث۱۸۸۴ ، ج۳ ، ص ۱۸۸ ، المکتب الاسلامی بیروت )   

استقبالِ رمضان :

        جب رمضان شریف کا پُربہار مہینہ تشریف لاتا ہے توامیر اہلسنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی خوشی کا عالم دیدنی ہوتا ہے ۔ آپ کے جذبات کی عکاسی ان اشعار سے ہوتی ہے :

مرحبا صَد مرحبا پھرآمدِ رمضان ہے       کھِل اٹھے مُرجھائے دل تازہ ہُوا ایمان ہے

        ہم گنہگاروں پہ یہ کتنا بڑا اِحسان ہے             یاخدا  عَزَّ وَجَلَّ تُونے عطا پھرکردیا رَمَضان ہے

ہر گھڑی رَحْمت بھری ہے ہرطرف ہیں برکتیں        ماہِ رمضاں رحمتوں اور برکتوں کی کان ہے

یاالہٰی ! عَزَّ وَجَلَّ تومدینے میں کبھی رمضاں دکھا         مدتوں سے دل میں یہ عطارؔ کے ارمان ہے

اَلوداع ِرمضان :

        ۱۴۰۳ھ کا واقعہ ہے کہ امیر اہلسنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کثیر اسلامی بھائیوں کے ساتھ معتکف تھے۔ انتیسواں روزہ افطار کرنے کے بعد نمازِمغرب سے فارغ ہوکر سرجھکائے بیٹھے تھے اتنے میں کسی نے آکر آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہسے عرْض کیا :  ’’مبارَک ہو عیدُالفطر کا چاند نظر آگیا ‘‘ یہ سنّتے ہی آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے پھر روتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ افسوس رَحمتوں اور بَرَکتوں کا مبارَک مہینہ ہم سے جدا ہوگیا لیکن ہم رَمَضانُ المبارَک کی قدر نہ کرسکے ، پھر روتے ہوئے اپنی پُر سوز آواز میں ماہ رَمَضانُ المبارَک کے متعلق اَلوَداعِیہ اشعار پڑھے ، سینکڑوں لوگ جوامیرِ اہلِسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی زیارت و ملاقات کے لئے حاضر تھے وہ بھی اشکبار ہوگئے کافی دیر تک آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہگریہ و زاری فرماتے رہے ۔   

آخری روزے ہیں دل غمناک مضطرجان ہے               حسرتاواحسرتا اب چل دیا رمضان ہے

عاشقانِ ماہِ رمضاں رورہے ہیں پھوٹ کر              دل بڑابے چین ہے افسردہ روح وجان ہے

الفراق والفراق اے رب  عَزَّ وَجَلَّ کے مہماں الفراق         الوداع والوداع تجھ کو مہِ رمضان ہے

داستانِ غم سنائیں کس کوجاکرآہ!ہم                   یارسول  اللہ !دیکھوچل دیا رمضان ہے

سب مسلماں الوداع کہتے ہیں روروکرتجھے          آہ! چند گھڑیوں کا اب تُورہ گیامہمان ہے

کاش!آتے سال ہوعطارؔکورمضاں نصیب                  یانبی! میٹھے مدینے میں بڑا ارمان ہے

حفاظتِِ ایمان کی فکر

        حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی   اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا :  ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ یعنی اعمال کادارومدار خاتمے پر ہے ۔‘‘

(صحیح البخاری ، کتاب القدر ، الحدیث ۶۶۰۷، ج۴، ص۲۷۴، دارالکتب العلمیۃ بیروت)

                                                                                                امیرِ اہلِسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہحفاظتِ ایمان کے بارے میں بہت حُسّاس واقع ہوئے ہیں ۔صفر المظفر ۱۴۲۴ھ میں امیرِ اہل ِ سنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی طرف سے مرکزی مجلسِ شوریٰ اور دیگر مجالس کے اراکین وغیرہ کے نام لکھے گئے ایک کھلے خط کی ابتداء میں ایمان کی حفاظت سے متعلق کی جانے والی ’’فکر ِمدینہ‘‘ کا پر تاثیر اندازملاحظہ ہو، …

                                                ’’( بعدِ سلام تحریر فرمایا)یہ الفاظ لکھتے وقت آہ! میں مدینہ منورہ سے بہت دور پڑاہوں ۔ مدینہ منورہ میں رات کے تقریباً تین بج کر ۲۱ منٹ اور پاکستان میں پانچ بج کر ۲۱ منٹ ہوئے ہیں ، میں اپنی قیام گاہ کے مکتب میں مغموم و ملول قلم سنبھالے آپ حضرات کی بارگاہوں میں تحریراً دستک دے رہاہوں ۔ آج کل یہاں طوفانی ہوائیں چل رہی ہیں جو کہ دلوں کو خوفزدہ کردیتی ہیں ۔ہائے ہائے! بڑھاپا آنکھیں پھاڑے پیچھا کئے چلا آرہا اور موت کا پیغام سنا رہا ہے۔ مگر نفس اَمارہ ہے کہ سرکشی میں بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ۔ کہیں ہوا کا کوئی تیز و تند جھونکا میری زندگی کے چراغ کو گل نہ کردے! اے مولیٰ  عَزَّ وَجَلَّ زندگی کا چَراغ تو یقینا بجھ کر رہے گا، میرے ایمان کی شمع سدا روشن رہے ۔ یا   اللہ  ! مجھے گناہوں کے دلدل سے نکال دے ۔ کرم : : : : کرم : : : : کرم!

 

Index