تعارف امیر اہلسنت

مزارشریف پرحاضری کے لیے پہنچاتواسی نوجوان کومزارکے احاطے میں بیٹھے دیکھا، اس کے ہاتھ میں وہی رسالہ تھا۔میں نے بعدِسلام خیریت دریافت کی تو وہ دھیمے لہجے میں کہنے لگا : میں نے آپ کے پیش کردہ رسالہ کامطالعہ کیا، اس نے مجھے لرزہ دیاہے، میری اس وقت عجیب حالت ہے، کبھی میں بھی سیدھاسادہ نوجوان تھامگراب بری صحبت کی وجہ سے معاشرے کاانتہائی برافردبن چکاہوں ، لوگوں کولوٹنا، چوریاں کرنا، ڈاکے ڈالنامیری عادت ہے، یہ موبائل فون بھی کسی سے چھیناہے اس بے چارے کاباربارفون آرہاہے کہ کچھ رقم لے لواور میراموبائل واپس کردو، آپ کے دیئے ہوئے رسالے کو پڑھ کراس بُری زندگی کو چھوڑنے کاذہن بناہے۔‘‘   

 ابھی ہماری گفتگوجاری تھی کہ دوبارہ موبائل پربیل بجی، اس نے اس مرتبہ فون بند کرنے کے بجائے مجھ سے میرانام اوردکان کاپتامعلوم کیااورفون پرجواب دیاکہ میں تمہاراموبائل اس دکاندارکودے کرجارہا ہوں ، آکرحاصل کرلواورمجھے معاف کردینا، مجھ میں یہ تبدیلی رسالہ ’’میں سدھرناچاہتاہوں ‘‘پڑھ کرآئی ہے اوراسی وجہ سے میں موبائل واپس کررہاہوں ۔۔۔۔۔۔۔ پھرمجھے وہ موبائل دے کرلوٹ گیااورمیں امیرِ اہلسنّت مدظلہ العالی کی پرتاثیرتحریرکی برکات سے مستفیض ہونے والے خوش نصیب نوجوان کودیکھ رہاتھا۔

احترامِ مسلم :

        تحصیل ٹانڈا ضلع آمبیڈ کرنگر (یو پی ہند)کے ایک اسلامی بھائی کا کچھ اس طرح بیان ہے کہ میں کفر کی تاریک وادیوں میں بھٹک رہا تھا، ایک دن کسی نے امیرِ اہلِسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے تحریری بیان کا رسالہ احترامِ مسلم تحفے میں دیا میں نے پڑھا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ جن مسلمانوں کو میں نے ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے ان کا مذہب ’’اسلام ‘‘ آپس میں اس قدر امن و آشتی کا پیام دیتا ہے ! رسالے کی تحریر تاثیر کا تیر بن کر میرے جگر میں پیوست ہوگئی اور میرے دل میں اسلام کی محبت کا دریا موجیں مارنے لگا ۔ایک دن میں بس میں سفر کر رہا تھا کہ چند داڑھی اور عمامے والے اسلامی بھائیوں کا قافلہ بھی بس میں سوار ہو ا ، میں دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ مسلمان ہیں ، میرے دل میں اسلام کی محبت تو پیدا ہو ہی چکی تھی لہٰذا میں احترام کی نظر سے انہیں دیکھنے لگا، اتنے میں ایک اسلامی بھائی نے نبی پاک صَلَّی   اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شان میں نعت شریف پڑھنی شروع کردی ، مجھے اس کاانداز بے حد بھلا لگا ، میری دلچسپی دیکھ کران میں سے ایک نے مجھ سے گفتگو شروع کردی ۔ وہ تاڑ گیا کہ میں مسلمان نہیں ہوں ، اس نے مسکراتے ہوئے بڑے دلنشین انداز میں مجھ سے کہا ، میں آپ سے  اسلام قبول کرنے کی د رخواست کرتا ہوں ، میں رسالہ ’’احترامِ مسلم‘‘ پڑھ کر چونکہ پہلے ہی دلی طور پر اسلام کا گرویدہ ہوچکا تھا ، اس کے عاجزانہ انداز نے دل پر مزید اثر ڈالا، مجھ سے انکا ر نہ بن پڑا۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ  عَزَّ وَجَلَّیہ بیان دیتے وقت مسلمان ہوئے مجھے چار ماہ ہو چکے ہیں میں پابندی سے نماز پڑھ رہا ہوں ، داڑھی سجانے کی نیت کرلی ہے ، دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو کر مدنی قافلوں میں سفر کی سعادت بھی پارہا ہوں ۔

  کافروں کو چلیں    مشرکوں کو چلیں        دعوت دین دیں        قافلے میں چلو

   دین پھیلائیے        سب چلے آئیے              مل کے سارے چلیں    قافلے میں چلو

سنّتوں بھرے بیا نا ت

        نیکی کی دعوت دینے کا ایک مؤثر ذریعہ بیان بھی ہے۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ  عَزَّ وَجَلَّ! امیرِ اہلِسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہبھی ان علماء میں سے ہیں جن کے بیانات سننے والوں پرجادو کی طرح اثر انداز ہوتے ہیں ۔آپ کے سنّتوں بھرے اِصلاحی بیانات کوسننے والوں کی محویّت کا عالم قابل ِ دید ہوتا ہے ۔ تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے سنتوں بھرے بین الاقوامی اور صوبائی سطح کے اجتماعات میں بیک وقت لاکھوں مسلمان آپ کے بیان سے مستفیض ہوتے ہیں ، بذریعہ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ ‘بیان سننے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ کے بیانات بذریعہکیسیٹگھروں ، دکانوں ، مساجد، جامعات وغیرہ میں بھی نہایت شوق سے سنے جاتے ہیں ۔بیانات کی ان کیسیٹوں اور سی ڈیز کو مکتبۃ المدینہ شائع کرتا ہے ۔ آپ کا اندازِبیان بے حد سادہ اور عام فہم اورطریقہ تفہیم ایسا ہمدردانہ ہوتا ہے کہ سننے والے کے دل میں تاثیر کا تیر بن کر پیوست ہوجاتا ہے ۔ لاکھوں مسلمان آپ کے بیانات کی برکت سے تائب ہوکر راہِ راست پر آچکے ہیں ۔ آپ کے بیان کی ایک مدنی بہار ملاحظہ ہو :  

نمازی ڈاکو :

        باب المدینہ (کراچی )کے ایک ذمہ دار اسلامی بھائی کا بیان ہے میراایک جگری دوست بہت زیادہ ماڈرن جُو ااور شراب کا عادی اور معاذ  اللہ  عَزَّ وَجَلَّ گنا ہوں میں بڑا دلیر تھا ۔کسی طرح باز نہ آتا تھا ، یوں تو وہ باب المدینہ (کراچی)سے تعلق رکھتا تھا مگر کا رو بار کے لئے اس نے کولمبو میں مقامی خاتون سے شادی کر رکھی تھی ۔ایک بار باب المدینہ سے کو لمبو روانگی کے وقت میں نے اس کے سامان میں امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکے سنتوں بھر ے بیان کی کیسٹ’’نمازی ڈاکو‘‘ڈال دی۔

        کو لمبو پہنچ کر اس نے کیسٹ ٹیپ ریکا رڈ میں لگا ئی ۔ امیر اہلسنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکے الفاظ تاثیر کا تیر بن کر اس کے جگر میں پیوست ہو نے لگے ۔اس بیان کی برکت سے اس میں حیر ت انگیز طور پر مدنی انقلاب آگیا ۔یہاں تک کہ کو لمبو جیسے فحاشی و عریانی سے بھر پورعلاقے میں اس نے داڑھی اور سبز سبز عمامہ شریف کا مدنی تاج مستقل طور پر سجا لیا۔دعوت اسلامی کے مدنی کاموں میں مشغولیت اختیار کرلی اور  امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہسے بیعت ہو کر عطاری ہونے کی سعادت بھی پالی ۔ ۱۰جولائی 2003ء کو وہ بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہو ئے موت کی آغوش میں چلے گئے ۔‘‘

 

Index