تعارف امیر اہلسنت

        امیرِ اہلِسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام لینے کی بجائے اسے معاف کردیتے ہیں ۔جب امیرِ اہل سنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہموسیٰ لین باب المدینہ (کراچی )میں ایک فلیٹ میں رہا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ پڑوس میں رہنے والی خاتون کی آپ کے گھر والوں سے کچھ بدمزگی ہوگئی ۔ اس خاتون نے اسی وقت گھر میں موجود اپنے بچوں کے ابو  (یعنی شوہر) کو سارا قصہ اپنے انداز میں جاسنایا ۔ وہ اس کی بات سن کر بھڑک اٹھا اورخطرناک تیور لئے آپ کے دروازے پر پہنچا اور آپ سے ملنے کا تقاضا کیا لیکن آپ اس وقت راہ ِ خدا  عَزَّ وَجَلَّ میں سفر کرنے والے مدنی قافلے میں سفر اختیار کئے ہوئے تھے ۔ یہاں سے ناکام ہونے کے بعد وہ اس مسجد میں جاپہنچا جہاں آپ امامت فرماتے تھے اور آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے خلاف واویلا مچانا شروع کردیا اور مختلف قسم کی دھمکیاں دے ڈالیں ۔

         جب آپ مَدَنی قافلے سے واپسی پر مسجد میں پہنچے تو آپ کو اس کے بارے میں بتایا گیا ۔ آپ نے تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی انتقامی کارروائی نہ کی بلکہ اس کو منانے کی فکر میں لگ گئے ۔ چند دن بعد مسجد سے گھرکی طرف جاتے ہوئے وہی شخص اپنے گھر کے باہرکچھ لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوا مل گیا ۔ آپ اسے دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھ گئے اور سلام کیا۔آپ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر شدید غصے کے آثار نمودار ہوئے لیکن آپ نے اس کے غصے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نہایت نرمی اور شفقت سے کہا، ’’بھائی !آپ تو بہت ناراض دکھائی دیتے ہیں ۔‘‘ آپ کا پیار بھرا انداز دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا اوراس کی ناراضگی دور ہوگئی ۔یہاں تک کہ وہ باصرار آپ کو اپنے گھر لے گیا اور ٹھنڈے مشروب سے آپ کی خاطرداری کی ۔

ناراض ہونے والے کوسینے سے لگالیا :

                دعوت ِ اسلامی کے اوائل میں امیرِ اہل سنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکو ایک اسلامی بھائی کے بارے میں پتا چلا کہ وہ آپ کو برابھلا کہتا ہے اوراس نے آپ کی امامت میں نماز پڑھنا بھی چھوڑ دی ہے ۔ایک دن وہ آپ کو اپنے دوست کے ساتھ سرِراہ مل گیا۔آپ نے اسے سلام کیا تو اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ لیکن آپ نے اس کی بے رخی کا کوئی اثر نہ لیا اور اس کے سامنے ہوکر مسکراتے ہوئے کہا’’بہت ناراض ہو بھائی؟ …‘‘ اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور گرم جوشی سے معانقہ کیا۔ اس کے دوست کا کہنا ہے کہ وہ آپ کے جانے کے بعد کہنے لگا ، ’’عجیب آدمی ہے ، میرے منہ پھیر لینے کے باوجود اس نے مجھے گلے لگا لیا ، جب اس نے مجھے گلے لگایا تو یوں محسوس ہوا کہ دل کی ساری نفرت محبت میں بدل گئی ، لہٰذا! میں مرید بنوں گا تو انہی کا بنوں گا۔‘‘پھر وہ اسلامی بھائی اپنے کہنے کے مطابق آپ کے مرید بھی بنے اور داڑھی شریف بھی چہرے پر سجا لی ۔

حقوق کی معافی :

         اَمیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکے جذبہء عفوودرگزر کے قربان کہ خود آگے بڑھ کر اپنے حُقوق سب کو  مُعاف کر رہے ہیں ۔ چُنانچِہ مَدَنی وصیّت نامہ ص 10 اورنَماز کے احکام ص 463 پر وصیّت نمبر۳۸  تا ۴۰ مُلا حَظہ ہوں :

وصیت( نمبر ۳۸ ) :       مجھے جو کوئی گالی دے ، بُرا بھلا کہے، زخمی کردے یا کسی طرح بھی دل آزاری کا سبب بنے میں اُسے  اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کے لئے پیشگی مُعا ف کرچکا ہوں ۔

وصیت( نمبر ۳۹ ) :       مجھے ستانے والوں سے کوئی انتِقام نہ لے۔

وصیت( نمبر۴۰) :        قتلِ مسلم میں تین طرح کے حقوق ہیں (۱) حَقُّ   اللہ  (۲) حَقِّ مقتول اور (۳) حقِّ وُرَثا۔بِالفرض کوئی مجھے شہید کردے تو حقّ   اللہ  معاف کرنے کا مجھے اختیار نہیں البتّہ میری طرف سے اُسے حقِّ مقتول یعنی میرے حُقُوق مُعاف ہیں ۔وُرَثاء سے بھی درخواست ہے کہ اسے اپنا حق مُعاف کر دیں ۔  اگر سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شَفاعَت کے صَدقے محشر میں مجھ پر خُصوصی کرم ہوگیا تو اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے قاتِل یعنی مجھے شہادت کا جام پلانے والے کوبھی جنّت میں لیتا جاؤں گابشرطیکہ اُس کا خاتِمہ ایمان پر ہُوا ہو۔

(اس سلسلے میں مزید معلومات کیلئے مَدَنی وصیت نامہ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کا مطالعہ فرمائیں ۔)

جانوروں پر بھی شفقت

        حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ حضور نبی کریم، رء وف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’ایک فاحشہ عورت کی صرف اس لئے مغفرت فرما دی گئی کہ اس کا گزر ایک ایسے کتے کے پاس سے ہو ا جو ایک کنوئیں کی منڈیر کے پاس پڑا مارے پیا س کے ہانپ رہا تھا ، قریب تھا کہ وہ پیا س سے مرجاتا ۔ اس عورت نے اپنا موزہ اتا ر کر دوپٹے سے باندھا اور پا نی نکال کر اسے پلایا تو یہی اس کی بخشش کا سبب ہو گیا ۔‘‘(صحیح البخاری ، کتا ب بد ء الخلق ، باب اذا وقع الذباب فی شراب۔۔ الخ الحدیث ۳۳۲۱، ج ، ۲، ص ۴۰۹)

بے تاب چیونٹی :

         امیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہانسان تو انسان بِلا وجہ جانوروں بلکہ چیونٹی تک کو بھی تکلیف دینا گوارا نہیں کرتے حالانکہ عوامُ النّاس کی نَظَر میں اس کی کوئی وُقْعَت نہیں ۔ ایک مرتبہ آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی خِدمت میں پیش کئے گئے کَیلوں کے ساتھ اتفاقاً ایک چھلکا بھی آگیا جس پر ایک چیونٹی بڑی بے تابی سے پِھر رہی تھی۔ آپ فوراً معاملہ سمجھ گئے لہٰذا فرمایا کہ دیکھو یہ چیونٹی اپنے قبیلے سے بِچھڑ گئی ہے۔کیونکہ چیونٹی ہمیشہ اپنے قبیلے کے ساتھ رہتی ہے اس لئے بے تاب ہے ۔برائے مہربانی کوئی اسلامی بھائی اس چِھلکے کو چیونٹی سمیت لے جائیں اور واپس وہیں جا کر رکھ آئیں جہاں سے اُٹھایا گیا ہے، یوں وہ چِھلکا چیونٹی سمیت اپنی جگہ پہنچا دیا گیا۔

چیونٹیوں کے ہٹنے کا انتظار :

        اسی طرح ایک بار آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہواش بیسن پَر ہاتھ دھونے کیلئے پہنچے مگر رُک گئے، پھر ارشاد فرمایا کہ واش بیسن میں چند چیونٹیاں رِینگ رہی ہیں ، اگر میں نے ہاتھ دھوئے تو یہ بہہ کر مر جائیں گی، لہٰذا کچھ دیر انتظار فرمانے کے بعد جب چیونٹیاں آگے پیچھے ہوگئیں تو پھرآپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہنے ہاتھ دھوئے۔

 

Index