تعارف امیر اہلسنت

کام نہیں آتی ۔ مجھے تو یہ اِسراف نظر آتا ہے اور اگر مسجد کے نام پر کئے ہوئے چندے کی رقم سے اس طرح کا اسراف کیا جائے تو توبہ کے ساتھ ساتھ تاوان یعنی جو کچھ مالی نقصان ہوا وہ بھی ادا کرنا پڑیگا۔‘‘ عرض کی گئی، ’’ایک یادگاری تختی بنوا لیتے ہیں ، آپ اس کی پردہ کشائی فرمادیجئے گا۔‘‘ توفرمایا !’’ پردہ کشائی کرنے اور سنگ بنیاد رکھنے میں فرق ہے۔ پھر چونکہ ابھی میدان ہی ہے اس لئے شاید وہ تختی بھی ضائع ہوجائے گی۔ ‘‘

        بالآخرامیرِاہلسنت مدظلہ العالی نے فرمایا کہ’’ جہاں واقعی ستون بنا نا ہے اس جگہ پر ہتھوڑے مار کر کھودنے کی رسم ادا کرلی جائے اوراس کو ’’سنگِ بنیاد رکھنا‘‘ کہنے کے بجائے ’’تعمیر کا آغاز‘‘ کہا جائے۔‘‘ چنانچہ۲۲ ربیع النور شریف ۱۴۲۶ھ یکم مئی 2005ء بروز اتوار، آپ کی ساداتِ کرام سے محبت میں ڈوبی ہوئی خواہش کے مطابق 25سیِّدمَدَنی منوں نے اپنے ہاتھوں سے مخصوص جگہ پر ہتھوڑے چلائے ، آپ خودبھی اس میں شریک ہوئے اور اس نرالی شان سے فیضان مدینہ (صحرائے مدینہ، ٹول پلازہ، سپر ہائی وے باب المدینہ کراچی) کے تعمیری کام کا آغاز ہوا۔

سنت کی بہار آئی صحرائے مدینہ میں

رحمت کی گھٹا چھائی صحرائے مدینہ میں

ایثار وسخاوت

ایک مرتبہ امیرِ اہلِسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہسے ان کے ایک عزیز نے (بطورِ برکت )

ان کے استعمال کا عصا مانگا تو آپ نے فرمایا : ’’ایک کی بجائے دو لے لیجئے۔‘‘جواباً انہوں نے واقعی دونوں عصا لے لئے ۔ ان صاحب کے بیٹے نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے استعمال کا عصا کون سا ہے؟

( تاکہ ایک عصا واپس کیا جاسکے )لیکن آپ نے فرمایا کہ میں دونوں عصا لے لینے کی اجازت دے چکا ہوں نیز میں اپنی پسندیدہ شے راہِ خدا  عَزَّ وَجَلَّ میں خرچ کرنے کاثواب   کمانا چاہتا ہوں ، قرآن پاک میں ہے ،

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ

ترجمۂ کنزالایمان :  تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خد ا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو ۔۴، اٰل عمران : ۹۲)

 عبادت وریاضت

        اَلْحَمْدُلِلّٰہِ  عَزَّ وَجَلَّ! شیخِ طریقت امیرِ اہلِسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکو آنکھ کھولتے ہی گھر میں پنجگانہ نمازوں کی ادائیگی اورماہِ رمضان کے روزے پابندی سے رکھنے کا مدنی ماحول ملا ۔ جیسے ہی داڑھی نکلی‘ رکھ لی حالانکہ اس دور میں شاذو نادر ہی کوئی نوجوان داڑھی والا نظرآتاتھا ۔اس کے علاوہ آپ نے زُلفیں رکھنے کی سنت پر بھی عمل کیا۔   

نمازِ باجماعت کی پابندی :

         ربّ  عَزَّ وَجَلَّ کے کرم سے شروع سے ہی امیرِ اہلِسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکا باجماعت نماز پڑھنے کا ذہن تھا، جماعت ترک کردینا آپ کی لُغَتْ میں تھاہی نہیں ۔ یہاں تک کہ جب آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو اس وقت گھر میں دوسراکوئی مرد نہ تھا، آپ اکیلے تھے مگراَلْحَمْدُلِلّٰہِ  عَزَّ وَجَلَّ ماں کی مَیِّت چھوڑ کرمسجد میں نماز پڑھانے کی سعادت پائی۔آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہفرماتے ہیں : ’’ماں کے غم میں میرے آنسوضَرور بہہ رہے تھے، مگر اس صورت میں بھی اَلْحَمْدُلِلّٰہِ  عَزَّ وَجَلَّ جماعت نہ چھوڑی ۔‘‘

نمازوں میں  مجھے ہرگز نہ ہو سُستی کبھی  آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

پڑھوں پانچوں نمازیں باجماعت یا رسول  اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

        امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہڈاکٹروں کے مشورے پر آپریشن کیلئے حیدرآباد تشریف لائے توآپ ہی کے مطالبے پر نمازِ عشاء کے بعد کا وقت طے کیا گیاتاکہ آپ کی کوئی نماز قضاء نہ ہونے پائے۔ OPERATION سے قبل دونوں ہاتھ آپریشن ٹیبل کی SIDES میں باندھ دیئے گئے تھے جو ں ہی کھولے گئے آپ نے فوراً قیامِ نَماز کی طرح باندھ لئے ۔ ابھی نیم بے ہوشی طاری تھی، درد سے کراہنے ، چلّانے کے بجائے زَبان پر ذکرودرود اور مُناجات کا سِلسلہ جاری ہوگیا۔یکایک آپ نے پوچھا، ’’کیا نمازِ فجر کا وقت ہوگیا؟اگر ہوگیا ہے تو ان شاء   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ میں فجر کی نماز پڑھوں گا۔‘‘توآپ کو بتایا گیا کہ ’’فجر میں ابھی کافی دیر ہے ۔‘‘   

مال کی محبت سے پرہیز

        امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکو دیکھا گیا کہ جب کبھی ضرورتاً جیب میں رقم رکھنی پڑے تو سینے کی سیدھی جانب والی جیب میں رکھتے ہیں ۔ اس کی حکمت دریافت کرنے پر فرمایا’’ میں الٹے ہاتھ والی جیب میں رقم اسلئے نہیں رکھتا کہ دنیوی دولت دل سے لگی رہے گی اوریہ مجھے گوارا نہیں ، لہٰذا میں ضرورت پڑنے پر رقم سیدھی جانب والی جیب میں ہی رکھتا ہوں ۔‘‘

                                                ایک مرتبہ امیرِ اہلِسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہنے اسلامی بھائیوں کو ترغیب دلانے کے لئے ارشاد فرمایا کہ الحمدﷲ عَزَّ وَجَلَّ !سنہری جالیوں کے روبروحاضرہو کر مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی میں نے سرکارِنامدار صَلَّی   اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دربار سے دنیا کی ذلیل دولت کا مطالبہ کیا ہو ، بلکہ میں نے تو یہی عرْض کیا ہے : ’’یارسول اﷲ صَلَّی   اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! مجھے اپنی یاد میں تڑپنے والا دل عطا کردیجئے…آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مجھے اپنے غم میں رونے والی آنکھ دے دیجئے…اوراس سے پہلے کہ آتش عشق سرد پڑجائے، آپ کی مَحبت میں آنسو ختْم ہوجائیں مجھے ایمان وعافیت پر مدینہ شریف میں موت نصیب ہو جائے۔‘‘

               رات دن عشق میں تیرے تڑپاکروں        یانبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! ایسا سوزِجِگر چاہیئے

 

Index