تعارف امیر اہلسنت

شہد کی مکھی کا ڈنک :

        عرب امارات کے قیام کے دوران غالباً ۴ ربیع الغوث  ۱۴۱۸ھ کو قیام گاہ پر علی الصبح اندھیرے میں شیخ طریقت امیر اہلسنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکا پاؤں ایک شہد کی مکھی پر پڑگیا۔ اس نے آپ کے پاؤں کے تلوے پر ڈنک مار دیا، جس پر آپ  نے بے تاب ہو کر قدم اٹھالیااور وہ شہدکی مکھی رینگنے لگی ۔ایک اسلامی بھائی اس مکھی کو مارنے کیلئے دوا کا اسپرے(Flying Insect Killer) اٹھالائے لیکن آپ نے فوراً اس کا ہاتھ روک دیا اور فرمایا، ’’ اس بے چاری کا قصور نہیں ، قصور میرا ہی ہے کہ میں نے بغیر دیکھے غریب پر پاؤں رکھ دیا، اب وہ اپنی جان بچانے کے لئے ڈنک نہ

 مارتی تو اورکیا کرتی؟‘‘پھرفرمایا، ’’ شہد کی مکھی کے ڈنک میں عذاب قبرو جہنم کی تذکیر یعنی یاد ہے ، یہ تو مقامِ شکر ہے کہ مجھے شہد کی مکھی نے کاٹا ، اگر اس کی جگہ کوئی بچھو ہو تا تو میں کیا کرتا؟‘‘

ڈنک مچھر کا بھی مجھ سے تو سہا جاتا نہیں

             قبر میں بچھو کے ڈنک کیسے سہوں گا یارب   (ارمغان مدینہ)

زخمی گدھا :

         امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہنے ایک باراپنے سنّتوں بھرے بیان ’’جانوروں کو ستانا حرام ہے‘‘ میں ضمناً فرمایا کہ میں ایک دن اپنے گھر سے نماز ظہر کیلئے نکلا تو دیکھا کہ اپنی گلی کے تھوڑے فاصلے پر ایک بیمار گدھا پڑا ہے ۔ اس میں اٹھنے کی سکَت نہ تھی، بے چارے کی گردن پر خارش کے باعث زخْم ہوگیا تھا۔ جس کے سبب اس نے گردن کو زمین سے اوپر اٹھا رکھا تھا، گردن میں تکلیف بڑھنے پر جیسے ہی گردن زمین پر رکھنا چاہتا تو تکلیف کے باعث دوبارہ گردن اٹھالیتا، وہ انتہائی تکلیف اور بے بسی کے عالم میں مبتلا تھا۔میں نے جب اُس کی یہ حالت دیکھی تو مجھے اُس پر بہت رحم آیا کہ یہ (بے زبان) جانور ہے کس سے فریاد کرے۔ بہرحال میں نے اپنے گھر سے ایک  پُرانی گدڑی منگوالی اور اس کی گردن کے نیچے رکھ دی(تاکہ زمین کی سختی کی تکلیف سے اس کو نجات ملے ) ایسا کرنے سے اسے فی الواقع تسکین ہوئی، اور اس نے اپنی گردن سے گدڑی پر ٹیک لگالی، آپ مانیں یا نہ مانیں ، وہ مجھے سر اٹھا کر شکریہ بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔     

 صبر

         اَمیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکے مَحلے میں رہنے والے ایک اسلامی بھائی نے جو آپ کو بچپن سے جانتے ہیں ، حلفیہ بتایا کہ اَمیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہبچپن میں بھی نہایت ہی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ اگر آپ کو کوئی ڈانٹ دیتا یا مار تا تو انتقامی کارروائی کرنے کی بجائے خاموشی اختیار فرماتے اور صبر کرتے ، ہم نے انہیں بچپن میں بھی کبھی کسی کو برا بھلا کہتے یا کسی کے ساتھ جھگڑا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔

عاجزی وانکساری

        سرورِ کونین ، نانائے حسنین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا : ’’جو کوئی   اللہ  تَعَالٰی کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے   اللہ  تَعَالٰی اس کا درجہ بلند فرماتا ہے۔ ‘‘

(صحیح مسلم، کتاب البرو الصلۃ ، باب ا ستحباب العفو والتواضع ، الحدیث ۲۵۸۸، ص۱۳۹۷)

       عظیم مذہبی رہنما ہونے کے باوجود اَمیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی تواضع وانکساری کا یہ عالم ہے کہ اپنے محبین ومتعلقین کے درمیان بھی اپنے لئے کسی امتیاز کو پسند نہیں فرماتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب اَمیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہاحیائے سنت کے لیے سفر پرروانہ ہونے والے مدنی قافلے میں شریک ہوتے تو متعددباردیکھاگیاکہ پہلے نشستوں پراپنے اسلامی بھائیوں کوبٹھاتے اورجگہ نہ ملنے کی صورت میں کبھی کبھی آپ نشست سے نیچے ہی بیٹھ جاتے ۔ آپ کی اس قدرعاجزی دیکھ کربعض اوقات لوگوں کی آنکھوں سے اشک جاری ہوجاتے۔   

        مطبوعہ مکتوب، غیبت کی تباہ کاریاں کے صفحہ نمبر ۴۴پر اَمیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہنے اپنے حُقوق مُعاف کرنے کے ساتھ ساتھ پُر سوز انداز میں عاجزی فرماتے ہوئے مُعافی طلب کی ہے۔ اس سے آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی انکساری کا اندازہ ہوتا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں :

        ’’کاش ! مجھے بھی ہر مسلمان اپنے تمام حُقوق مُعاف کرکے مجھ پر اِحْسانِ عظیم کرے اور اجرِ عظیم کا حقدار بنے، جو بھی یہ مکتوب پڑھے یا سنے، اے کاش ! وہ دل کی گہرائی کے ساتھ کہہ دے میں نے   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کیلئے اپنے اگلے پچھلے تمام حقوق محمد الیاس عطاؔر قادِری کو مُعاف کئے۔‘‘

تقویٰ وپرہیزگاری

        اَلْحَمْدُلِلّٰہِ  عَزَّ وَجَلَّ! اَمیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہتقویٰ وپرہیزگاری کے انوار سے بھی منوّر ہیں ۔ ۱۴۲۳ھ میں سفرِ’’ چل مدینہ‘‘ کے دوران امیرِ اہلسنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکو دیکھا گیاکہ گرم پانی کے کپ میں Tea bagڈال کر چائے کی پتی حل فرمائی پھردودھ اور چینی ڈالنے سے پہلے Tea bagکو اچھی طرح نچوڑ کر نکالا (جب کہ عموماً لوگ بغیر نچوڑے پھینک دیتے ہیں ) اس کے بعددودھ اور چینی ڈالی اور چائے نوش فرمائی۔آپ کی خدمت میں عرض کی گئی : ’’ حضور ! اس میں کیا حکمت ہے ؟‘‘ ارشاد فرمایا : ’’ میں نے محسوس کیا کہ دودھ اور چینی کے کچھ اجزاء Tea bagمیں رہ جائیں گے ، اس لئے میں نے اسے احتیاطاً گرم پانی ہی میں نچوڑ لیا، تاکہ کوئی کارآمد چیز ضائع نہ ہونے پائے ۔ ‘‘

تجھے واسطہ سارے نبیوں کا مولا عَزَّ وَجَلَّ

مجھے متقی تُو بنا یاالٰہی عَزَّ وَجَلَّ   

سنگِ بنیاد :

        جب شیخ ِ طریقت امیرِ اہلسنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی خدمت میں صحرائے مدینہ(باب المدینہ کراچی) میں فَیضانِ مد ینہ کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لئے عرض کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ ’’سنگ ِبنیاد ‘‘ میں عموماً کھودے ہوئے گڑھے میں کسی شخصیت کے ہاتھو ں سے سیمنٹ کا گارا ڈلوا دیا جاتا ہے، بعض جگہ ساتھ میں اینٹ بھی رکھوالی جاتی ہے لیکن یہ سب رسمی ہوتا ہے ، بعد میں وہ سیمنٹ وغیرہ

Index