امامِ حسن کی ۳۰ حکایات

میں اُس نے سورۂ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 134 کا یہ حصہ تلاوت کیا :  وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- یعنی ’’ غصہ پینے والے اورلوگوں سے درگزر کرنے والے۔‘‘   آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا : میں نے معاف کیا۔  غلام نے پھر اسی آیت کا آخری حصہ پڑھا :  وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ (۱۳۴) یعنی’’ نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ ‘‘  آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا  : میں نے تجھے رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی خوشنودی کے لئے آزاد کیا ۔   (روح البیان ج۲ص ۹۵ملخّصا)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 {۲۴} اگر ایک کان میں گالی اور دوسرے۔ ۔ ۔

       حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ فرماتے ہیں  : لَوْاَنَّ رَجُلًا شَتَمَنِیْ فِیْ اُذُنِی ہٰذِہٖ،  وَاعْتَذَرَ اِلَیَّ فِی اُذُنِی الْاُُخْرٰی لَقَبِلْتُ عُذْرَہ۔ یعنی اگر کوئی میرے ایک کان میں گالی دے اور دوسرے کا ن میں معافی مانگ لے تو میں ضرور اس کی معذرت قبول کروں گا ۔   (بہجۃ المجالس وانس المجالس لابن عبدالبر ج۲ص۴۸۶ )

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 {۲۵}  نماز کے وقت رنگ بدل جاتا

          حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہجونہی وضو کر کے فارغ ہوتے آپ کا رنگ بدل جاتا۔  اس کی وجہ پوچھنے پر فرمایا :  جو شخص مالکِ عرش  (یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ)  کی بارگاہ میں حاضری کا ارادہ کرے تو حق یہی ہے کہ اس کا رنگ بدل جائے۔   (وفیات الاعیان ج۲ص۵۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 {۲۶} کتے پرشفقت کرنے والا باکمال غلام

        حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےمدینۃُ المنوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے ایک باغ میں ایک ایسے سیاہ فام (یعنی کالے)  غلام کو دیکھا جو ایک لقمہ خود کھاتا اور ایک اپنے کتے کو کھلاتا۔  آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاس کے پاس تشریف لائے اور فرمایا :  تمہیں اس بات پہ کس نے ابھارا؟ اس نے عرض کی :  مجھے اس بات سے حیا (یعنی شرم)  آتی ہے کہ خود تو کھاؤں لیکن اسے نہ کھلاؤں۔ آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو یہ بات بہت پسندآئی اُس سے ارشاد فرمایا :  میری واپسی تک یہیں ٹھہرنا۔  یہ فرماکر آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاُس کے مالک کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے وہ غلام اور باغ خرید فرمایا اور غلام کو آزاد فرما کر باغ اس کو تحفے میں دے دیا ۔ غلام بھی عقل مند تھا اور راہِ خد ا میں خرچ کرنے کی اہمیت سے آگاہ تھا،  لہٰذااس نے فوراً عرض کی :  یَامَوْلَایَ! قَدْ وَہَبْتُ الْحَائِطَ لِلَّذِی وَہَبْتَنِی لَہُ یعنی اے میرے آقا!  میں اس باغ کو اسی کی رضا (یعنی خوشنودی)  کی خاطرہبہ (Gift)  کرتا ہوں جس کی رضا کے لیے آپ نے مجھے یہ عطا فرمایا ہے۔     (تاریخ بغدادج۶ص۳۳ رقم۳۰۵۹ )

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 {۲۷} امام حسن مجتبٰی کا خواب

         حضرت سیّدناعمران بن عبداللّٰہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِسے روایت ہے کہ حضرت سیّدنا امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے خواب دیکھا کہ آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی آنکھوں کے درمیان قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد لکھاہے۔  آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے یہ خوشخبری اپنے اہلِ بیت کو سنائی۔ انہوں نے جب یہ واقعہ تابعی بزرگ حضرت سیّدنا سعید بن مسیبرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے سامنے بیان کیاتو آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا :  اگرواقعی یہ خواب دیکھا ہے تو ان کی عمر کے چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں۔  اس واقعے کے کچھ دن ہی بعد امامِ حسن مجتبیٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکا وصال ہو گیا۔ (الطبقات الکبیر لابن سعد ج۶ ص۳۸۶ رقم۷۳۷۹)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 {۲۸} ایسی مخلوق پہلے کبھی نہیں دیکھی

          وفات کے قریب حضرت سیّدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے دیکھا کہ سیّدنا امامِ حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو گھبراہٹ ہو رہی ہے۔  

Index