امامِ حسن کی ۳۰ حکایات

      حضرت سیّدُنا امامِ حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پہلو میں بیٹھ کر ایک آدمی ایک بار اللہ عَزَّ وَجَلَّسے دس ہزار درہم کا سُوال کررہا تھا، جیسے ہی آ پ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے اس حاجت مندکی یہ دعاسنی تو فوراً اپنے گھر تشریف لائے اور اس شخص کے لئے10 ہزار درہم بِھجوا دیئے۔  (ابن عساکر ج۱۳ ص۲۴۵)

میرا دل کرتا ہے میں بھی حج کروں

ہو عطا زادِ سفر چشمِ کرم!

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 {۱۷} حاجی پر احسان کرنے والے بخش دیئے جاتے ہیں

     حضرت سیِّدُنا ابو ہارون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :  ایک مرتبہ ہم حج کے ارادے سے نکلے،  جب  مدینۃُالمنوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًپہنچے تو  (حضرت سیِّدُنا امام)  حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی زیارت کے لیے بھی حاضر ہوئے، سلام و دعا کے بعد سفرِ حج کے حالات عرض کیے ۔ جب ہم واپس آنے لگے تو  (سیِّدُنا امام)  حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے ہم میں سے ہرشخص کے لیے چار چار سو درہم بھجوائے ۔  ہم نے رقم لانے والے صاحِب سے کہا:  ہم تو مالدارو دولت مند ہیں،  ہمیں اِس کی حاجت نہیں۔  اس نے کہا :  آپ حضرات ( امام) حسنرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی بھلائی کوواپس نہ لوٹایئے ۔ پھر ہم ( حضرت سیِّدُنا امام) حسنرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے اوراپنی مالداری کے بارے میں عرض کیا۔  فرمایا : میرے عملِ خیر (یعنی بھلائی کے کام)  کو واپس مت کیجیے،   اگر میری موجودہ حالت ایسی نہ ہوتی تو یہ  (رقم قبول نہ کرنا) تمہارے لیے آسان ہوتا، میں تو آپ حضرات کو زادِ راہ پیش کررہا ہوں،  اللہ عَزَّوَجَلَّ عرفے کے دن اپنے بندوں کے متعلق فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :  میرے بندے پراگندہ حال (یعنی حیران و پریشان)  میری بارگاہ میں رحمت کے سوالی بن کر حاضر ہیں، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان پر احسان کرنے والے کو بخش دیا، ان  سے بُراسلوک کرنے والے کے حق میں ان کے محسن (یعنی احسان کرنے والے)  کی شفاعت قبول کی۔  اللہ عَزَّوَجَلَّ جمعے کے دن بھی اسی طرح فرماتا ہے۔   ( ابن عساکر ج۱۳ص ۲۴۸ )

                        صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 {18} مہمان نواز بُڑھیا

    حَسَنین کریمین  (یعنی حسن وحسین)  اور عبداللّٰہ ابنِ جعفر رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنتینوں حج کے لیے جارہے تھے ، کھانے پینے اور سامان کا اونٹ بہت پیچھے رہ گیا تھا۔  بھوک پیاس سے بے تاب ہو کر یہ صاحبان راستے میں ایک بڑھیا کے خیمے (CAMP)  پر گئے اور اس سے فرمایا :  ہم کو پیاس لگی ہے۔ اس نے ایک بکری کا دودھ نکال کر ان تینوں کو پیش کیا۔  دودھ پی کر انہوں نے فرمایا  :  کچھ کھانے کے لیے لائو!  بڑھیانے کہا کہ کھانے کو تو کچھ موجود نہیں ہے آپ اسی بکری کو ذَبح کرکے کھالیجئے ۔ ان صاحِبان نے ایسا ہی کیا،  کھانے پینے سے فارِغ ہو کر انہوں نے کہا  : ہم قریشی ہیں جب سفر سے واپس آئیں گے تو تم ہمارے پاس آنا ہم تمہارے اس احسان کا بدلہ دیں گے۔  یہ کہہ کر یہ تینوں صاحِبان آگے روانہ ہوگئے‘ جب اُس بڑھیا کا شوہر آیا تو ناراض ہوا کہ تو نے بکری ایسے لوگوں کی خاطر ذبح کرادی جن سے نہ ہماری واقِفیت تھی اور نہ دوستی۔  اس واقعہ کو کچھ مدّت گزر گئی۔  اُس بڑھیااور اس کے خاوَند کو  مدینۃ المنورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً جانے کی ضرورت پڑی،  وہ وہاں پہنچے اور اونٹ کی مینگنیاں چُن چُن کر بیچنے لگے   ( تاکہ اپنا پیٹ بھر سکیں) ۔  ایک دن یہ بڑھیا کہیں جارہی تھی حضرتِ سیدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے مکانِ عالیشان کے قریب سے گزری اُس وقت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہدروازے پر کھڑے تھے ۔  بڑھیا پر جوں ہی نظر پڑی اُس کو پہچان لیا اوراس سے فرمایا :  اے خاتون! آپ مجھے پہچانتی ہیں ؟  اُس نے کہا :  نہیں۔ آپ نے فرمایا  :  میں وُہی ہوںجو فُلاں روزتمہارا مہمان ہوا تھا۔ اُس نے کہا  : اچّھا آپ وہ ہیں؟  اس کے بعد آپ نے اس بڑھیا  کو ایک ہزار بکریاں اور ایک ہزار دِینار عطا فرمائے اور اپنے غلام کے ہمراہ اس کو حضرتِ سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس بھیجا۔  آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے بڑھیاسے پوچھا  :  اے خاتون!  میرے بھائی صاحِب نے آپ کو کیا دیا؟  اُس نے کہا :  ایک ہزار بکریاں اور ایک ہزار دِینار عطا فرمائے ہیں۔ حضرتِ سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بھی اِسی قَدَر انعام اس کو دیا

Index