امامِ حسن کی ۳۰ حکایات

   امیر المؤمنین حضرتِ سیّدنا علی المرتضیٰ شیرخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی شہادت کے بعد حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہمسندِ خلافت پر جلوہ افروز ہوئے تواہلِ کوفہ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے دستِ مبارک پر بیعت کی۔  آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے وہاں کچھ عرصہ قیام فرمایاپھر چند شرائط کے ساتھ اُمورِ خلافت حضرت ِسیّدنا امیرمعاوِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کوسپرد فرمادئیے ۔  حضرت سیّدُنا امیرمعاوِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے تمام شرائط قبول کیں اور باہم صلح ہوگئی۔ یوں تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا یہ معجزہ ظاہرہواجو آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایاتھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّمیرے اس فرزند کی بدولت مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح فرمائے گا۔  (سوانح کربلا ص ۹۶ملخصاً)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 {۹} امام حسن مجتبٰی کا خطبہ

          حضرت سیِّدُنا شیخ یوسف بن اسمٰعیل نبہانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں :  جب حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے حضرت سیدناامیر معاو یہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی بیعت کرلی اور اُمورِ خلافت ان کے سپرد فرمادیے تو حضرت سیدناامیرمعاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے کوفے آنے سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :  ‘’ اے لوگو!  بیشک ہم تمہارے مہمان ہیں اور تمہارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اہلِ بیت ہیں کہ جن سے رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے ہر قسم کی ناپاکی دور کردی اور انہیں خوب ستھرا فرمادیا۔ ’‘  یہ کلمات (یعنی جملے)  آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے بار بار دہرائے حتی کہ مجلس میں موجود ہر شخص رونے لگا اور ان کے رونے کی آواز دور تک سنی گئی۔  (برکاتِ اٰلِ رسول ص۱۳۸)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 {۱۰} دنیا کی شرم عذابِ آخرت سے بہتر ہے

  حضرتِ سیِّدُنا امامِ حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہجب خلافت سے دستبردار ہو گئے تو بعض ناواقف لوگ آپ کو یَا عَارَ الْمُؤمِنِین  (یعنی اے مسلمانوں کے لیے باعثِ شرم)  کہہ کر پکارتے ، اس پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  فرماتے : ’’  عار،  نار سے (یعنی دنیا کی یہ شرم عذابِ آخرت سے ) بہتر ہے۔  ‘‘  (الاستیعاب ج ۱ ص ۴۳۸)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سب سے پہلے غوثِ اعظم

     امامِ حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی عاجزی مرحبا!  ترکِ خلافت کے صِلے میں،  اللہ تَعَالٰی نے آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو غوثِ اعظم کا رُتبہ عطا فرمایا۔  جیسا کہ فتاوٰی رضویہ جلد 28 صفحہ 392پر علاّمہ علی قاری حنفی مکّی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کے حوالے سے نقل ہے :  ’’  بے شک مجھے اکابِر ( یعنی بُزرگوں) سے پہنچا کہ سیِّدُنا امامِ حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جب بخیال فتنہ و بلا  ( یعنی مسلمانوں میں فساد ختم کرنے کے خیال سے)  یہ خلافت ترک فرمائی،  اللہ  عَزَّ وَجَلَّنے اس کے بدلے ان میں اور ان کی اولاد اَمجادمیں غوثِیّتِ عظمی کا مرتبہ رکھا۔   پہلے قطبِ اکبر ( غوثِ اعظم)  خود حضور سیِّدُنا امام حسن ہوئے اور اوسط  ( یعنی بیچ)  میں صرف حضور سیدنا عبدُالقادر اور آخِر میں حضرت امام مہدی ہوں گے۔ ‘‘  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن۔    (فتاوٰی رضویہ ج۲۸ ص ۳۹۲)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

خلافتِ راشدہ  

          نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بعد خلیفۂ برحق وامام مطلق حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق،  پھرحضرت عمرفاروق،  پھرحضرت عثمان غنی،  پھر حضرت مولیٰ علی پھرچھ مہینے کے لیے حضرت امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمہوئے، ان حضرات کوخلفائے راشدین اوران کی خلافت کو خلافت راشدہ کہتے ہیں۔    (بہارشریعت ج۱ص۲۴۱)

 {۱۱} اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں اس سے محبت کرتا ہوں

 

Index