اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی 30 حکایات
شیطان لاکھ سستی دلائے یہ رسالہ پورا پڑھ لیجئے، اِنْ شَآءَاللہُ عَزَّ وَجَلَّمعلومات کے
ساتھ ساتھ حضرتِ امامِ حَسَن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی مَحَبَّت دل میں موجیں مارنے لگے گی۔
حضرت سیِّدُنا ابو العبّاس اُقْلِیْشِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکوبعد وفات کسی نے خواب میں جنت میں دیکھا۔ پوچھا : آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے یہ مَقام کیسے پایا؟ جواب دیا : اپنی کتاب ’’ اَلْاَرْبَعِیْن‘‘ میں کثرت سے دُرود شریف لکھنے کی وجہ سے ۔ (القول البدیع ص۴۶۷ مُلَخّصاً)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۱} خشک دَرَخت پر تازہ کھجوریں
عارِف بِاللّٰہ ، حضرت سیّدنا نورُ الدِّین عبدالرحمن جامی قُدِّسَ سِرُّہُ السّامیفرماتے ہیں : امام عالی مقام حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسفر کے دوران کھجوروں کے باغ سے گزرے جس کے تمام درخت خشک ہوچکے تھے ، حضرت سیّدنا عبدُ اللّٰہ ابنِ زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بھی اس سفر میں ساتھ تھے۔ حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے اس باغ میں پڑاؤ ڈالا (یعنی قیام کیا) ۔ خُدام نے ایک سُوکھے درخت کے نیچے آرام کیلئے بچھونابچھا دیا۔ حضرت سیّدنا عبداللّٰہ ابنِ زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کی : اے نواسۂ رسول! کاش ! اس سوکھے درخت پر تازہ کھجوریں ہوتیں! کہ ہم سیر ہو کر کھاتے۔ یہ سن کر حضرتِ سیّدناامام حسن مجتبیٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے آہستہ آواز میں کوئی دعاپڑھی، جس کی برکت سے چند لمحوں میں وہ سوکھا درخت سرسبزوشاداب ہوگیا اور اس میں تازہ پکی کھجوریں آگئیں ۔ یہ منظر دیکھ کر ایک شتربان (یعنی اونٹ ہانکنے والا) کہنے لگا : یہ سب جادو کا کرشمہ ہے۔ حضرت سیّدنا عبدُاللّٰہ ابنِ زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اسے ڈانٹا اورفرمایا : توبہ کر ، یہ جادو نہیں بلکہ شہزادۂ رسول کی دُعائے مقبول ہے ۔ پھر لوگوں نے درخت سے کھجوریںتوڑیں اورقافلے والوں نے خوب کھائیں۔ (شواھدُ النّبوۃص۲۲۷)
راکبِ دوشِ شہنشاہِ اُمَم فاطِمہ کے لال حیدر کے پِسَر!
یاحَسَن ابنِ علی! کر دو کرم! اپنی اُلفَت دو مجھے دو اپنا غَم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۲} ولادت سے قبل بِشارت
رسولِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی چچی جان حضرت سیّدتنا اُمُّ الْفَضْل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے آپ سے اپنا خواب عرض کیا : ’’ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! کی آپ کے مبارک جسم کا حصہ میرے گھر آیا ہے ۔ ‘‘ یہ سنتے ہی آپکینے ارشاد فرمایا : ’’ تم نے اچھا خواب دیکھا ، فاطِمہ کے یہاں بیٹا پید ا ہوگا اور تم اسے دودھ پلاؤ گی ۔ ‘‘ جب حضرت سیّدتنا فاطِمۃ الزہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے ہاں حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی ولادت ہوئی تو حضرت سیّدتنا اُمُّ الفضل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو دودھ پلایا۔ (الذریۃ الطاھرۃ للدولابی ص۷۲)
امامِ عالی مقام ، امامِ ہُمام ، امامِ عرش مقام حضرتِ سیّدنا اما م ابو محمد حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی ولادتِ باسعادت15 رَمضانُ المبارَک 3ہجری