امامِ حسن کی ۳۰ حکایات

آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے ان کی تسکین کے لیے عرض کیا :  بھائی جان!  آپ کیوں رنجیدہ ہیں؟  رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور حضرت علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی خدمت میں آپ کو عنقریب حاضری کی سعادت نصیب ہوگی اور وہ دونوں آپ کے آبا ئ (نانا جان اور ابو جان)  ہیں، اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ،  حضرت فاطمہ زہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکی بارگاہ میں حاضری ہوگی اور وہ دونوں آپ کی امہات (نانی جان اور امی جان)  ہیں۔ حضرت قاسم و طاہر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکا دیدار نصیب ہوگااور وہ آپ کے ماموں ہیںاور حضرت حمزہ وجعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے ملاقات ہوگی اور وہ آپ کے چچا ہیں۔ حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا :  اے بھائی!  آج میں ایک ایسے معاملے میں داخل ہونے والا ہوں جس میں پہلے کبھی داخل نہیں ہواتھا اور آج میں اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی خلق میں سے ایسی مخلوق کو دیکھ رہا ہوں جس کی مثل میں نے کبھی نہیں دیکھی ۔  (تاریخ الخلفاء ص۱۵۳ملخّصاً)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

شہادت کا سبب

  حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو زہرد یا گیا۔ اُس زہر کا آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہپر ایسا اثر ہوا کہ آنتیں ٹکڑے ٹکڑے ہوکر خارِج ہونے لگیں،  40 روز تک آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو سخت تکلیف رہی۔  

وفات حسرت آیات

      امامِ عالی مقام ،  امامِ عرش مقام،  امامِ ہمام حضرت سیدنا امام ابو محمد حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے 5ربیع الاول50ھ کو مدینۃُ المنوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں اس دارِ ناپائیدار سے رحلت فرمائی (یعنی وفات پائی) ،  اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ۔  (صفۃ الصفوۃ ج۱ص۳۸۶) یہ بھی کہا گیا ہے کہ49ھ میں وفات ہوئی۔ بوقتِ شہادت حضرت سیّدنا امامِ حسن مجتبیٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی عمر شریف 47سال تھی۔   (تقریب الھذیب لابن حجر عسقلانی ص۲۴۰ )

 {۲۹} نمازِ جنازہ

       آ پ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی نمازِ جنازہ حضرت سیّدنا سعید بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے پڑھائی جو اس وقت مدینۃُ المنوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے گورنر تھے۔ حضرت سیّدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو جنازہ پڑھانے کے لئے آگے بڑھایا ۔    (الاستیعاب ج۱ص۴۴۲ملخّصاً)  

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 {۳۰} جنازے میں لوگوں کا رش

      حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے جنازے میں اس قدر جمِّ غفیر  (Crowd)  تھا کہ حضرت سیّدنا ثَعْلَبَہ بن ابی مالکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں : میں امامِ حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے جنازے میں شریک ہوا، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو جنت البقیع میں  (اپنی والدۂ ماجدہ کے پہلو میں)  دفنایا گیا،  میں نے جنت البقیع میں لوگوں کا اس قدر اِزدِحام (Crowd)  دیکھا کہ اگر سوئی بھی پھینکی جاتی تو  (بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے ) وہ بھی زمین پر نہ گرتی بلکہ کسی نہ کسی انسان کے سر پر گرتی۔  (الاصابۃج۲ص۶۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

امام حسن کی اولاد

        آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی کثیر اولاد تھی، امام ابنِ جَوزی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے آپ کے شہزادوں کی تعداد15 اور صاحبزادیوں کی تعداد 8 لکھی ہے۔   (المنتظم ج۵ص۲۲۵)  جبکہ امام محمد بن احمد ذَہبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے آ پ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے 12 شہزادوں کے نام لکھے ہیں :  حسن ، زید ، طلحہ ، قَاسِم،  ابُو بَکْر اور عَبْدُ اللّٰہ ان چھ نے اپنے چچا جان سیّد الشُّہدا حضرت سیّدنا امامِ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ساتھ میدانِ کربلا میں جامِ شہادت نوش کیا۔   بقیہ چھ یہ ہیں :  

Index