امامِ حسن کی ۳۰ حکایات

     حضرت سیِّدُنابَراء بن عازِب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نور کے پیکر،  تمام نبیوں کے سَرْوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  (امام)  حسن بن علی (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم)  کو کندھے پر اُٹھائے ہوئے ہیں اوربارگاہِ الٰہی میں عرض کررہے ہیں : اَللّٰہُمَّ اِنِّی اُحِبُّہٗ فَاَحِبَّہٗ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!  میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔  (ترمذی ج ۵ ص ۴۳۲ حدیث ۳۸۰۸ )

یا حسن!  اپنی محبت دیجئے!

عشق میں اپنے ہمیں گُم کیجئے

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 {۱۲} مُنّے کی پیدائش

          عارِف بِاللّٰہ ، حضرتِ سیِّدُنا نورُ الدین عبدالرحمن جامیؔ قُدِّسَ سِرُّہُ السّامی  (وفات :  989ھ )  نقل فرماتے ہیں : ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہحج کے موقع پر مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پیدل تشریف لے جا رہے تھے کہ دورانِ سفر آپ کے پاؤں مبارک میں سُوجن آگئی، غلام نے عرض کی :  حضور! کسی سُواری پر سُوار ہوجائیے تاکہ قدموں کی سُوجن کم ہوجائے،  امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے غلام کی درخواست قبول نہ کی اور فرمایا :  جب اپنی منزِل پر پہنچو تووہاں تمہیں ایک حبشی ملے گا،  اس کے پاس تیل ہو گا ، تم اس سے وہ تیل خریدلینا۔  آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے غلام نے کہا :  میرے ماں باپ آپ پر قربان!  ہم نے کسی بھی جگہ کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جس کے پاس ایسی دوا ہو۔ اس جگہ کہاں دستیاب ہوگی؟  جب وہ اپنی منزل پر پہنچے تو وہ حبشی دکھائی دیا۔ امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : یہ وُہی حبشی ہے جس کے بارے میں تم سے کہا تھا،  جاؤ اس سے تیل خریدو اور قیمت ادا کرو۔  غلام جب تیل خریدنے کے لیے حبشی کے پاس گیا اور تیل کاپوچھا تو حبشی نے پوچھا :  کس کے لیے خرید رہے ہو؟ غلام نے کہا : امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے لیے۔  حبشی نے کہا :  مجھے امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس لے چلو،  میں ان کا غلام ہوں۔  جب حبشی حضرت امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس آیا تو عرض کی :  حضور!  میں آپ کا غلام ہوں، آپ سے تیل کی قیمت نہیں لوں گا،  میری بیوی دردِ زہ میں مبتلا ہے، دعا فرمائیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّعافیت کے ساتھ اولاد عطا فرمائے۔  حضرت امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا :  گھر جاؤ،  اللہ عَزَّ وَجَلَّتمہیں ویسا ہی بچہ عطا فرمائے گا جیسا تم چاہتے ہو اور وہ ہمارا پیروکار رہے گا۔  حبشی گھر پہنچا تو گھر کی حالت ویسی ہی پائی جیسی اس نے امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے سنی تھی۔   (شواھد النبوۃ ص ۲۲۷)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 {۱۳} سُرمہ و خوش بو سے مہمانی

            امیر المومنین حضرتِ سیّدُنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے نکاح کی دعوت میں شرکت کے لئے  (حضرت سیّدنا امام)  حسن بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکو پیغام بھجوایا ۔ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ تشریف لائے تو امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے اپنے ساتھ مسند  (مَس۔ نَد)  پر بٹھایا۔  حضرت سیّدنا امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے بتایا : میرا روزہ ہے ، اگر میرے علم میں یہ بات پہلے آجاتی کہ آپ دعوت فرمائیں گے تو میں (نفل)  روزہ نہ رکھتا۔  حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے ارشاد فرمایا :  آپ چاہیں تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے لئے وُہی اہتمام کیا جائے جو ایک روزے دار کے لئے کیاجاتا ہے۔  حضرت سیّدنا امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے پوچھا :  روزہ دار کے لیے کیا اہتمام کیا جاتاہے ؟ ارشاد فرمایا :  ’’  وہ یہ کہ روزہ دار کو سرمہ اور خوشبو لگائی جائے۔ ‘‘   پھر امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے سرمہ اور خوشبو منگوائی اورآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو یہ دونوں چیزیں لگائی گئیں۔   (تاریخ المدینۃ المنورۃ، جزئ۳ص۹۸۴)

          اے عاشقانِ صحابہ و اہلِ بیت !  اس حکایت سے ہمیں یہ مدنی پھول حاصِل ہوا : اگر مسلمان پہلے سے کھانے کی دعوت دے تو موقع کی مناسبت سے اُس کی دلجوئی کی خاطر روزۂ نفل ترک کر دینا مناسب ہے۔

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 

Index