میتھی کے 50 مدنی پھول

حصول ِعلِم دین کے لیے مزیدسفر

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!پیاس پانی سے بجھ جاتی ہے لیکن علم کا پیاسا کبھی سیر اب نہیں ہوتا  کیوں کہ یہ پیا س  چشمہ ٔعلم  سے  فیضاب ہوکر بڑھتی ہی چلی جاتی ہے ،حضرت سیدنا داتا گنج بخش  علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہآج کل جیسی  سَہُولیات مُیَسَّر نہ ہونے کے باوُجودکئی آزمائشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی  علمی پیاس بجھانے کے لیے  جلیلُ القدر ہستیوں کی بارگا ہ میں حاضر ہوئے  اور ان سے  نہ صرف بھر پور اِسْتِفَادَہ کیا  بلکہ  باطِنی تَرْبِیَّت بھی حاصِل فرمائی  اس نوعِیَّت کا ایک واقعہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ خود بیا ن فرماتے ہیں:ایک دن میں  حضرت سیدنا  ابو  القاسم عبداللہ  بن علی گرگانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی بارگا ہ میں  حاضرتھا اور جو لطائف مجھ پر مُنَکشِف ہوئے  تھے وہ میں آپ کی بارگا ہ میں عرض کررہا تھا   تاکہ آپ  کی ہدایات کے مطابق اپنےاحوال درست کرسکوں اس لیے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ناقدِ وقت تھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بہت اَدَب و اِحْتِرَام سے سُن رہے تھےمیرا لڑکپن اور جُوش  ِجوانی  اپنا  حال بیان کرنے پر حَرِیْص  بنا رہا تھا ۔عین  اسی حالت میں میرے دل میں یہ خیال گزرا  کہ جو لطائف  میرے اوپر گزرے ہیں  شاید  اس قدر لطائف اِن بزرگ (یعنی حضرت سیدنا  ابو  القاسم عبداللہ  بن علی گرگانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) پر نہیں گزرے یہی وجہ ہے کہ  آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نہایت توجہ  اور احترام  سے میرے اَحوال سن رہے ہیں۔ حضرت سیدنا  ابو  القاسم عبداللہ بن علی گرگانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بذریعۂ کشف میرے اس خیال پر مطلع ہوگئے اور فرمایا:”عزیز بیٹے! میرا یہ اِحْتِرام   صرف آپ کے ساتھ خاص نہیں  بلکہ یہ تو ہر ابتدائی طالب ِعلم سے ہے جو بھی اپنا حال بیان کرتا ہے میں اِسی اِحْتِرام سے اس کے اَحْوال سُنتا ہوں۔“ میں یہ سن کر خاموش ہوگیا ۔ ([1])

سوال کرنے کی فضیلت

اَمیرُالْمُؤمنِین حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خداکَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے :  ’’ علم خزانہ ہے اور سُوال کرنا اس کی چابی ہے،اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تم پر رحم فرمائے سُوال کیا کرو کیونکہ اس (یعنی سوال کرنے کی صورت ) میں چار افراد کو ثواب دیا جاتا ہے۔سُوال کرنے والے کو ،جواب دینے والے کو، سننے والے اوران سے مُحَبَّت کرنے والے کو۔ ‘‘  ([2])  

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!علم حاصل کرنے کے لیے سُوال کرنا یقیناً باعثِ فضیلت ہےلیکن اس کے لیے سُوال کرنے کے آداب کا لحاظ کرنا بھی ضروری ہے۔اگر کبھی کوئی عالم صاحب کسی وجہ سے ناراضی کا اظہار بھی فرما دیں تب بھی ادب کا دامن ہرگز نہیں چھوڑنا چاہئے۔اس ضمن میں امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے چنانچہآپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں: مجھے دینی مسائل سیکھنے کا بہت شوق تھا ، میں بچپن سے ہی علم کا پیاسا تھا۔میرے سوال کرنے پرایک دفعہ نہ جانے کیوں، ایک مفتی صاحب نے مجھے غصے سے جھاڑ پلادی مگرمیں نے( ادب سے)عرض کیا حضورعلماسے سنا ہے کہ   

فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۷) (پ۱۷،الانبیاء:۷)

ترجمۂ کنزالایمان:تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو۔

یہ سن کروہ فوراًنرم ہوگئے اورفرمایاہاں پوچھو؟ ۔

کتنا علم سیکھنا فرض ہے؟

حدیثِ پاک میں ہے : علم حاصل کرنا ہر مُسَلمانپرفرض ہے۔([3]) شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی، حضرت علّامہ مَوْلانا ابو بلال محمدالیاس عطّارقادِری رَضَوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتےہیں:اِس حدیثِ پاک کے تحت میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت، مولانا شاہ امام احمد رضا خانرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جوکچھ فرمایااس کاآسان لفظوں میں مختصراًخُلاصہ عرض کرنے کی کوشِش کرتاہوں۔ سب میں اوّلین و اہم ترین فرض



[1]     کشف المحجوب، ص۱۷۶، سیدِ ہجویر، ص۹۲

[2]     الفردوس بماثور الخطاب، باب العین، ۲ / ۸۰، حدیث: ۴۰۱۱

[3]     ابن ماجۃ،  کتاب السنۃ،  باب فضل العلماء والحث الخ، ۱ / ۱۴۶، حدیث: ۲۲۴

Index