رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سلطان محمود غزنوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے قائم کردہ دینی مدرسہ میں تقریباً بارہ تیرہ سال کی عمر میں زیرِ تعلیم تھے۔حصولِ علم کے جَذبہ سے سَرشار تعلیم میں اتنا مَحَو (یعنی مشغول) ہوتےکہ صَبْح سے شام ہو جاتی مگر پانی تک پینے کی فرصت نہ ملتی ۔رِضوان نامی سفید ریش بزرگ اس مدرسہ کے مُدَرِّس تھے ۔ وہ اپنے اس خاموش طبع طالِبِ علم کو تکریم کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔([1])
شیخِ طریقتامیرِاہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہاپنےرسالے”خاموش شہزادہ“ میں تحریر فرماتے ہیں:یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ خاموش رہنے میں نَدامت کا امکان بَہُت کم ہے جب کہ موقع بے موقع ’’ بول پڑنے ‘‘ کی عادت سے بارہا SORRY کہناپڑتااورمُعافی مانگنی پڑتی ہے یا پھر دل ہی دل میں پچھتاواہوتا ہے کہ میں یہاں نہ بولا ہوتا تو اچّھا تھا کیوں کہ میرے بولنے پرسامنے والے کی جِھجک اُڑ گئی، کھری کھری سننی پڑی، فُلاں ناراض ہوگیا،فُلاں کاچہرہ اُترگیا ، فُلاں کا دل دُکھ گیا ۔ اپنا وَقار بھی مَجروح ہوا وغیرہ وغیرہ۔حضرت سیِّدُنا محمد بن نَضْر حارِثی سے مروی ہے: زیادہ بولنے سے وَقار(دبدبہ) جاتارہتا ہے ۔ ([2])
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے:اَلْخَیْرُ خَیْرٌ مِّنَ السُّکُوْتِ وَالسُّکُوْتُ خَیْرٌ مِّنْ اِمْلَائِ الشَّرِّ یعنی اچّھی بات کہنا خاموشی سے بہتر ہے اور خاموش رہنا بُری بات کہنے سے بہتر ہے۔([3])حضرتِ سیِّدُنا علی بن عثمان ہجویری اَلْمَعروف داتا گنج بخشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ” کَشْفُ الْمَحْجُوب“میں فرماتے ہیں :کلام(یعنی بولنا) دو۲ طرح کا ہوتا ہے۔ ایک کلامِ حق اور دوسرا کلامِ باطل، اِسی طرح خاموشی بھی دو۲ طرح کی ہوتی ہے: (۱)بامقصد(مَثَلاً فکرِ آخِرت یا شَرْعی اَحکام پرغوروخَوض وغیرہ کیلئے) خاموشی(یعنی چُپ رہنا) (۲)غفلت بھری(یامَعاذَاللّٰہ گندے تصوّرات یا دنیا کے بے جاخَیالات سے بھر پور)خاموشی۔ ہر شَخْص کوسُکوت (یعنی خاموشی)کی حالت میں خوب اچّھی طرح غور کر لیناچاہئے کہ اگر اِس کا بولنا حق ہے توبولنا اُس کی خاموشی سے بہتر ہے اور اگر اُس کا بولنا باطِل ہے تو اُس کی خاموشی اس کے بولنے سے بہتر ہے ۔حُضور داتا گنج بخشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ گفتگو کے حق یا باطِل ہونے کے متعلِّق سمجھانے کیلئے ایکحکایتنَقْل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت ِسیِّدُنا ابو بکر شبلی بغدادیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بغدادشریف کے ایک مَحَلّے سے گزر تے ہوئے ایک شَخْص کو سنا وہ کہہ رہا تھا : اَلسُّکُوْتُ خَیْرٌ مِّنَ الْکَلَامِ یعنی خاموشی بولنے سے بہتر ہے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اسے فرمایا : ’’ تیر ے بولنے سے تیرا خاموش رہنا اچّھا ہے اور میرا بولنا خاموش رہنے سے بہتر ہے۔ ‘‘ ([4])
ایک روزسلطان محمود غزنوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا گُزر اس مَدْرَسے کے پاس سے ہواتو وہ اس عظیم درس گاہ میں تشریف لائے۔تما م طلبا ء زیارت کے لیے دوڑے لیکن حضرت سیدنا داتا علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مطالعے میں اس قدر منہمک تھے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو سلطان کی آمد کی خبر ہی نہ ہوئی ۔ اُستاد صاحب نے پکارا:دیکھو علی! کون آیا ہے ؟ اب کیا تھا ایک طرف سلطان محمود غزنوی اور دوسری جانب ایک کمسن طالب علم۔عجیب منظر تھا ، سلطان محمود غزنوی نے اس نوعمر طالب علم پر ایک نظر ڈالی لیکن تجلیات کی تاب نہ لاتے ہوئےفوراً نظریں جھکا دیں اور مُدَرِّس سے کہا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم ! یہ بچہ خدا کی طرف راغب ہے ایسے طالب علم اس مدرسہ کی زینت ہیں ۔([5])