میتھی کے 50 مدنی پھول

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

فیضانِ داتاعلی ہجویری

دُرود شریف کی فضیلت

حضرتِ سیِّدُنا عبد اﷲ بن مسعود  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے: اللہ  عَزَّوَجَلَّکےمَحبوب، دانائے غُیوبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ تقرُّب نشان ہے : بروزِ قیامت لوگوں میں میرے قریب تَروہ ہوگا، جس نے مجھ پر زیادہ دُرُودِ پاک پڑھے ہوں گے۔([1])

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                 صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

آزمائش  پر صبر و شکر کا انعام

ایک مشہور علمی گھرانے کے چشم و چراغ ، زُہدو تَقویٰ کے پیکر ،صلاحیت و قابلیت کے اعتبار سے اپنے زمانے میں ممتاز اور کئی علوم پر دسترس رکھنے والے  نوجوان عالمِ دین  کا معمول تھا کہ جب بھی کوئی  مشکل پیش آتی  مزارات ِ اولیا ء پر حاضر ہوجاتے ،صاحبِ مزار کے وسیلے سے دعا کرتے  اور اپنی دلی   مراد پاتے ۔ایک مرتبہ یہی عالم صاحب ایک علمی اُلجھن کا  شکار ہوئے تو حضرت سَیِّدنا بایزید  بسطامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے مزار کا رُخ کیا  تین ماہ تک درِبایزید  بسطامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پر یوں گزارے کہ ہر وقت باوضو رہتے لیکن مسئلہ حل نہ ہوا،شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ  اس بار معنوی جواب کے بجائے تجربے اور مُشاہدے کے ذریعے جواب حاصل کریں۔آخر ِکا ر اس مشکل کے حل کے لیے انہوں نے کُھردَرا  لباس  پہنا عصا اور وضو کابرتن تھامااور خُرَاساں کی جانب رَختِ سفر باندھ لیا۔راستے میں ایک گاؤں آیا تو عالم صاحب نے وہیں رات گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ گاؤں میں وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں دین دار نظر آنے والے دنیا داررہائش پذیر تھے  اُنہیں  وہاں ایسے کئی چہرے نظر آئے جو خوش حالی اور بے فکری سے دَمک رہے تھے۔ جیسے ہی ان لوگوں کی نظر اس اجنبی نوجوان پر پڑی تو ان میں سے ایک مُتکبرانہ چال چلتے ہوئےآگے بڑھا اور بولا:  ’’ تم کون ہو؟  ‘‘ عالم صاحب نے سخت لب ولہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے  نہایت نرمی سے جواب دیا:”مسافر ہوں ،رات گزارنےکے لیے ٹھہرنا چاہتا ہوں۔“وہ سب قہقہے لگا کر ہنس پڑے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے ۔ ’’  لگتا تو صوفی ہی ہے لیکن ہم میں سے نہیں ہے ۔ ‘‘ اس نوجوان عالم نے پُر اعتماد لہجے میں جواب دیا:

” آپ  نے بالکل درست کہا ، بے شک میں آپ لوگوں میں سے نہیں ہوں۔ ‘‘ اِنہوں نے عالم صاحب   کو نچلی منزل  پر ٹھہرایا اور خود بالا خانے میں چلے گئے ،کھانے کے وقت اُن کے آگے  پھپھوندی لگی سوکھی روٹی رکھ دی اورخود بالا خانے میں مُرَغَّن غذائیں  کھاتے ہوئے اُس نوجوان عالم پر آوازے کسنے لگے ۔کھانے سے فراغت کے بعد  انہوں نے خربوزے  کھائےاور چھلکے  اُن عالم صاحب  کے سر پر پھینکنے لگے ان نازیبا حَرَکات پر صبر کا عظیمُ الشان مُظاہرہ کرتے ہوئے اس نوجوان عالم نے اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی بارگاہ میں یوں عرض کی :”یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ!اگر میں تیرے مَحبو بوں کا لباس  پہننے والوں سے نہ  ہوتا  تو ضرور ان سے کنا رہ کش ہوجا تا ۔“پھر اپنے دل کی جانب مُتَوَجّہ ہوئے جو طعن و تشنیع   اور نازیبا  حرکتوں کے باوجودپُر سکون  ہونے کے ساتھ ساتھ مُسرور بھی تھا ۔اس  سکون اور مسرت نے عالم صاحب پر یہ بات آشکار کردی کہ دراصل  اللہ عَزَّوَجَلَّکے نیک بندوں کو  بلندمقام ومرتبہ اَذِیَّتوں پر صبر  و شکر  کا مُظاہر ہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔([2])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!برائی کو بھلائی سے ٹال کر اپنا جواب پانے والے  یہ نوجوان عالم  کوئی اور نہیں بلکہ حضرت سیّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہتھے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّنے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو وہ مقام و مرتبہ عطا فرمایا کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود آپ  کا فیضان  آج بھی   جاری ہے۔حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے اسی فیض کی جانب حضرت سیدنا خواجہ مُعِین ُالدِّین چشتی اَجمیریرَحْمَۃُ اللہِ



[1]     ترمذی، کتاب الوتر، باب ماجاء في فضل الصلاۃ علی النبی ،  ۲ / ۲۷، حدیث: ۴۸۴

[2]     کشف المحجوب، ص۶۵

Index