میتھی کے 50 مدنی پھول

اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہیں جو اپنے زمانے میں یکتا اور قدر و منزلت میں اَرْفَع و اَشْرَف تھے ۔ آپ کے حالات اور گو نا گوں فضائل اہلِ زمانہ میں مشہور ہیں ہر فن میں آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے لطائف موجود ہیں،آپ کی محققانہ تصانیف بکثرت ہیں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے حال و زبان کو لغویات سے محفوظ رکھا۔([1])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ لَغْوِیَّات سے محفوظ رکھے اس  کا شمُار  پسندید ہ بندوں میں ہوتا ہے ۔اُس پر رحمت ِالٰہی  جُھْوم جُھْوم کر برستی ہے  لہٰذا رحمتِ الٰہی کا حَقْدار بننے کے لیے  خود کو فُضُولِیَّات اور لَغْوِیَّات سے بچائیے۔ اس کےلیےروزانہ اپنے مَعْمُولات کا اِحْتِسَاب کیجیے۔اَلْحَمْدُلِلّٰہعَزَّوَجَلَّ! امیر ِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ  نےاسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کو مدنی انعامات عطا فرمائے ہیں جن کی برکت سے  نہ صرف فرائض وو اجبات پر عمل  کی سعادت اور ناجائزوحرام کاموں سے بچنے  کاذہن  ملتاہے بلکہ فضول بولنے اور دیکھنے سے چُھٹکار ا نصیب ہوتا ہے لہٰذا  آپ بھی روزانہ  مدنی انعامات کا رسالہ پُر کرنے کا معمول بنا لیجیے   اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّاس کی برکت سےآپ  پر بھی رحمتِ الٰہی    خوب برسے گی۔

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حضرت سیّدُناداتاعلی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت ابوالقاسم قشیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے جوکچھ  سنا اور سیکھا ان میں سے چند باتوں کو اپنی مایہ ناز کتا ب  کشف المحجوب میں محفوظ فرمایادیا ، اس سلسلے میں دو حکایات ملاحظہ کیجیے :

(۱)مجھے موتی درکار نہ تھے

حضرت سیّدُنا داتا علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :مَیں نےحضرت سیدنا عَبْدُ الکَرِیم بن ہَوَازِن قُشَیْرِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا: مَیں نے ایک بار طائرانی(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) سے پوچھا: آپ اپنا ابتدائی حال سنا ئیے۔  ارشادفرمایا:” ایک وقت مجھ پر وہ تھا کہ ایک پتھر کی ضرورت پڑی، سرخس کی ایک نہر سےجو پتھر مَیں نے اٹھایا ،وہی جوہر(قیمتی پتھر) بن گیا۔ مَیں نے اسے پھینک دیا۔“(حضرت سیدنا  ابوالقاسم قشیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہآپ کے اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں )یہ اس لیے نہیں کہ ان کی نظر میں جو ہر (قیمتی پتھر) اور پتھر یکساں تھے، بلکہ اس لیے کہ انہیں پتھر کی ضرورت تھی، جو ہر (قیمتی پتھر) درکار نہ تھا۔([2])

 (۲)رب عَزَّ  وَجَلَّ كی رضا میں میری رضاہے

حضرت سیّدناداتاعلی ہجویریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’  مَیں نے استاد ابوالقاسم قشیری(عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی ) سے سنا کہ لوگوں نےغربت و امیری میں گفتگو کرکے اپنے لیے ایک کو پسند کرلیاہے۔ مگرمَیں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے لیے میرا جمیلِ حقیقی (اللہ عَزَّ  وَجَلَّ )جو پسند فرمائے، اس میں ہی مجھے رکھے۔اگر میرے لیے دولت مند ہوناپسند فرمائے تو مجھے اپنی یاد سے غافل نہ کرے اور اگر غربت  پسند فرمائے ،تو اس میں حرص و لالچ  سے محفوظ رکھے۔ ‘‘ ([3])

حکایتوں سے حاصل ہونے والے مدنی پھول

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ا ن دونوں حکایتوں کے ذریعے اساتذہ  اور طلبا دونوں  ہی کے لیے بے شمار مدنی پھول  اپنی  خوشبو بکھیر رہے ہیں ،مثلاً

(۱)اگر طلباء اساتذہ  سے حاصل ہونے والی  نصیحتوں کو غورسے  سن کر  ذہن میں  محفوظ کرلیں  اور انہیں اپنی  عملی زندگی میں نافذ کریں تو یہ انہیں کامیابی تک پہنچانے کے لیےبے حد معاون ثابت ہوں گی ۔

(۲)کوئی بات ذہن نشین کرانے کے لیے اگر  اُس موضوع پر حکایت  سنا دی جائے  تو وہ بات جلد ذہن نشین ہوتی ہے  اور  اس کا اثر بھی ساری زندگی



[1]     کشف المحجوب، ص۱۷۴

[2]     کشف المحجوب، باب فی فرق فرقھم  فی مذاہبھم الخ، ص۲۴۴

[3]     کشف المحجوب،  ص ۲۵

Index