تذکرۂ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تصانیف

            میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے مختلف عُنوانات پر کم و بیش ایک ہزار کتابیں لِکھی ہیں۔ یوں تو آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے  1286ھ سے1340ھ تک لاکھوں فتو ے دیئے ہوں گے ، لیکن افسوس!  کہ سب نَقل نہ کئے جاسکے، جونَقل کرلیے گئے تھے اُن کا نام ’’اَلعَطایَا النَّبَوِیَّہ فِی الفَتاوَی الرَّضَوِیَّہ‘‘ رکھا گیا۔ فتاوٰی رضویہ  (مُخَرَّجہ)  کی 30جلدیں ہیں جن کے کل صَفحات 21656، کل سُوالات وجوابات :  6847اور کل رسائل : 206ہیں۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۳۰ ص۱۰ رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور)

            قراٰن و حدیث ، فِقہ، مَنطِق اور کلام وغیرہ میں آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی وُسعَتِ نظرِی کا اندازہ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے فتاوٰی کے مُطالَعے سے ہی ہوسکتا ہے۔کیوں کہ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے ہرفتوے میں دلائل کا سَمندر موج زَن ہے۔آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے سات رسائل کے نام مُلاحَظہ ہوں :

            {1}’’سُبحٰنَ السُّبُّوح عَن عیبِ کِذبٍ مَقْبُوح ‘‘سچّے خدا پر جھوٹ کا بُہتان باندھنے والوں کے ردّ میں یہ رسالہ تحریر فرمایا جس نے مخالِفِین کے دم توڑ دیئے اور قلم نِچوڑ دیئے {2} مَقامِعُ الْحَدِید {3} اَلْاَمْنُ وَالْعُلٰی{4} تَجَلِّی الْیقین {5} اَلکَوکَبَۃُ الشَّھَابِیۃ {6} سَلّ السُّیُوف الھِندیہ{7} حیاتُ الموات ۔

عِلم کا چشمہ ہُوا ہے مَوج زَن تحریر میں

جب قلم تُو نے اُٹھایا اے امام احمدرضا                (وسائلِ بخشش ص۵۳۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تَرجَمۂ قراٰنِ کریم

            میرے آقا اعلی حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے قراٰنِ کریم کا ترجَمہ کیا جو اُردو کے موجودہ تَراجِم میں سب پر فائق (یعنی فوقیت رکھتا)  ہے۔ ترجَمہ کا نام’’کنزُالایمان‘‘ہے جس پر آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے خلیفہ حضرتِ صدرُ الاَفاضِل مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے بنامِ ’’ خزائنُ العرفان‘‘ اور مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان  نے ’’نورالعرفان‘‘ کے نام سے حاشِیہ لکھا ہے۔

وفاتِ حسرت آیات

            اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے اپنی وفات سے 4ماہ22 دن پہلے خود اپنے وِصال کی خبر دے کر پارہ29 سورۃ الدھر  کی آیت15 سے سالِ انتِقال کا اِسْتِخْراج فرمادیا تھا۔اِس آیتِ شریفہ کے علمِ اَبجَد کے حساب سے  1340عَدَد بنتے ہیں اور یِہی ہجری سال کے اعتبار سے سنِ وفات ہے۔وہ آیتِ مبارَکہ یہ ہے :

وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ  (پ۲۹، الدہر: ۱۵)

ترجَمۂ کنزالایمان:  اور ان پر چاندی کے برتنوں اور کُوزوں کا دَور ہوگا۔ (سوانحِ امام احمد رضا ص۳۸۴ )

            25 صفر المظفَّر۱۳۴۰ھ مطابِق28 اکتوبر 1921ء کو جُمُعَۃُ الْمُبارَک  کے دن ہندوستان کے وَقت کے مطابِق2 بجکر 38 مِنَٹ (اور پاکستانی وقت کے مطابِق 2بجکر8مِنَٹ)  پر ، عَین اذانِ جُمعہ کے وَقتاعلٰی حضرت، اِمامِ اَھلسنّت ، ولیِ نِعمت، عظیمُ البَرَکت، عظیمُ المَرْتَبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامیِ سُنّت، ماحِیِ بِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیْرو بَرَکت، حضرتِ علّامہ مولانا الحاج الحافظ القاریشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن نے داعیٔ اَجل کو لبیّک کہا۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ (۱۵۶) آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کا مزار پُرانوارمدینۃ المرشد بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہِ خاص وعام ہے اللہ  عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

تُم کیا گئے کہ رونقِ محفِل چلی گئی

شِعر و ادب کی زُلف پریشاں ہے آج بھی

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دربارِ رسالت میں انتِظار

         25صفر المظفَّر1340ھ کو بیتُ المقدَّس میں ایک شامی بُزُرگ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  نے خواب میں اپنے آپ کو دربارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں پایا۔ صَحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَان دربار میں حاضِر تھے، لیکن مجلس میں سُکوت طاری تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی آنے والے کا اِنتِظار ہے، شامی بُزُرگ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے بارگاہِ

Index