تذکرۂ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

کی تاریخوں کا ذِکر تھا اور اس پر (سیِّدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے) ارشاد فرمایا:   بِحَمْدِ اللہِ تعالٰی میری وِلادت کی تاریخ اس آیۃ کریمہ میں ہے.:

اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ-  (پ، ۲۸، المجادلہ: ۲۲)

ترجمۂ کنزالایمان: یہ ہیں جن کے دلوں میں  اللہ نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی۔

            آپ کا نامِ مُبارَک محمد ہے اور آپ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔    

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حیرت انگیز بچپن

             عُموماً ہر زمانے کے بچّوں کا وُہی حال ہو تا ہے جو آج کل بچّوں کا ہے کہ سات آٹھ سال تک تو انہیں کسی بات کاہوش نہیں ہوتا اورنہ ہی وہ کسی بات کی تَہ تک پَہنچ سکتے ہیں ، مگر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کا بچپن بڑی اَہمّیَّت کا حامِل تھا ۔کم سِنی، خُردسالی (یعنی بچپن)  اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوّت ِ حافِظہ کا یہ عالم تھا کہ ساڑھے چارسال کی ننھی سی عمرمیں قراٰنِ مجید ناظِرہ مکمَّل پڑھنے کی نعمت سے باریاب ہو گئے۔چھ سال کے تھے کہ ربیع الاول کے مبارَک مہینے میں مِنبر پر جلوہ افروز ہو کر مِیلادُ النّبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے موضوع پر ایک بَہُت بڑے اجتِماع میں نہایت پُر مَغز تقریر فرماکر عُلَمائے کرام اور مشائخ عِظام سے تحسین و آفرین کی داد وُصول کی۔ اِسی عُمر میں آپ نے بغداد شریف کے بارے میں سَمت معلوم کر لی پھر تادمِ حیات بَلدَۂ مبارَکۂ غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الاکرم  (یعنی غوثِ اعظم کے مبارک شہر)  کی طرف پاؤں نہ پھیلائے۔ نَماز سے تو عشق کی حد تک لگاؤ تھا چُنانچِہ نَمازِ پنج گانہ باجماعت تکبیرِ اُولیٰ کا تحفُّظ کرتے ہوئے مسجِد میں جاکر ادا فرمایا کرتے، جب کبھی کسی خاتون کا سامنا ہوتا تو فوراً نظریں نیچی کرتے ہوئے سر جُھکا لیا کرتے ، گویا کہ سُنّتِ مصطَفٰے عَلیہِ التَّحِیَّۃُ وَالثَّناء  کا آپ پر غَلَبہ تھا جس کا اظہار کرتے ہوئے حُضُور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ عالِیہ میں یُوں سلام پیش کرتے ہیں :     ؎

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر دُرُود

اُونچی بِینی کی رِفعت پہ لاکھوں سلام

     اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے لڑکپن میں تقویٰ کو اِس قَدَر اپنا لیا تھا کہ چلتے وَقت قدموں کی آہٹ تک سُنائی نہ دیتی تھی ۔ سات سال کے تھے کہ ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں روزے رکھنے شُروع کر دیئے۔ ( دیباچہ فتاوٰی رضویہ ج۳۰ ص ۱۶)

بچپن کی ایک حِکایت

            جنابِ سیِّدایوب علی شاہ صاحِب رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کو گھر پر ایک مولوی صاحِب قراٰنِ مجید پڑھانے آیا کرتے تھے۔ ایک روز کا ذِکر ہے کہ مولوی صاحِب کسی آیتِ کریمہ میں بار بار ایک لفظ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کو بتاتے تھے مگر آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی زَبانِ مبارَک سے نہیں نکلتا تھا وہ ’’زَبَر‘‘ بتاتے تھے آپ ’’زیر‘‘ پڑھتے تھے یہ کیفیت جب آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے دادا جان حضرتِ مولانا رضا علی خان صاحب  رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے دیکھی توحُضُور (یعنی اعلیٰ حضرت)  کو اپنے پاس بُلایا اور کلامِ پاک منگوا کر دیکھا تو اس میں کاتِب نے غَلَطی سے زیر کی جگہ زَبر لکھ دیا تھا، یعنی جو اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی زَبان سے نکلتا تھا وہ صحیح تھا ۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے دادا نے پوچھا کہ بیٹے جس طرح مولوی صاحب پڑھاتے تھے تم اُسی طرح کیوں نہیں پڑھتے تھے؟  عرض کی:  میں ارادہ کرتا تھا مگر زَبان پر قابو نہ پاتا تھا۔

            اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ خود فرماتے تھے کہ میرے استاد جن سے میں ابتدائی کتاب پڑھتا تھا، جب مجھے سبق پڑھا دیا کرتے ، ایک دو مرتبہ میں دیکھ کر کتاب بند کر دیتا، جب سبق سنتے تو حَرف بَحرف لفظ بہ لفظ سنا دیتا ۔روزانہ یہ حالت دیکھ کر سخت تعجُّب کرتے ۔ایک دن مجھ سے فرمانے لگے کہ احمد میاں !  یہ تو کہو تم آدَمی ہو یا جِنّ؟  کہ مجھ کو پڑھاتے دیر لگتی ہے مگر تم کو یاد کرتے دیر نہیں لگتی!  آپ نے فرمایا کہ اللہ  کا شکر ہے میں انسان ہی ہوں ہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ  کا فضل وکرم شامِل حال ہے۔  (حیاتِ اعلٰی حضرت ج ۱ ص ۶۸)  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔         اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

پہلا فتوٰی

 

Index