تذکرۂ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

بخشش شریف میں فرماتے ہیں :    ؎

کروں تیرے نام پہ جاں فِدا نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا

دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

            غُرَبا کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے، ہمیشہ غریبوں کی امداد کرتے رہتے۔ بلکہ آخِری وَقْت بھی عزیز واقارِب کو وصیّت کی کہ غُرَبا کا خاص خیال رکھنا۔ ان کو خاطِر داری سے اچھّے اچھّے اور لذیذ کھانے اپنے گھر سے کھِلایا کرنا اور کسی غریب کومُطلَق نہ جِھڑکنا۔

            آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ اکثر تصنیف و تالیف میں لگے رہتے۔پانچوں نمازوں کے وَقْت مسجِد میں حاضر ہوتے اور ہمیشہ نمازباجماعت ادا فرمایا کرتے، آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی خُوراک بَہُت کم تھی۔

 دورانِ میلاد بیٹھنے کا انداز

       میرے آقااعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن محفلِ مِیلاد شریف میں ذِ کرِ ولادت شریف کے وَقْت صلوٰۃ وسلام پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے باقی شروع سے آخِر تک اَدَباً دوزانوبیٹھے رہتے۔ یوں ہی وَعظ فرماتے، چار پانچ گھنٹے کامل دو زانو ہی مِنبرشریف پر رہتے۔ (ایضاً ص۱۱۹، حیاتِ اعلٰی حضرت ج۱ ص۹۸) کاش!  ہم غلامانِ اعلیٰ حضرت کو بھی تِلاوت قراٰن کرتے یا سنتے وَقت نیز اجتِماعِ ذکر ونعت، سنّتوں بھرے اجتِماعات ، مَدَنی مذاکرات، درس و مَدَنی حلقوں وغیرہ میں اَدَباً دوزانو بیٹھنے کی سعادت مل جائے۔

سونے کا مُنْفَرِد انداز

            سوتے وَقت ہاتھ کے اَنگوٹھے کو شہادت کی اُنگلی پر رکھ لیتے تاکہ اُنگلیوں سے لفظ ’’اللہ‘‘بن جائے ۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  پَیر پھیلا کر کبھی نہ سوتے بلکہ د ا  ہنی (یعنی سیدھی)  کروٹ لیٹ کر دونوں ہاتھوں کو ملا کر سر کے نیچے رکھ لیتے اور پاؤں مبارَک سمیٹ لیتے ، اِس طرح جسم سے لفظ ’’محمّد‘‘ بن جاتا۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت ج۱ص۹۹ وغیرہ) یہ ہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے چاہنے والوں اور رسولِ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچّے عاشقِوں کی ادائیں    ؎

نامِ خُدا ہے ہاتھ میں نامِ نبی ہے ذات میں

مُہرِ غُلامی ہے پڑی، لکھے ہوئے ہیں نام دو

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ٹرین رُکی رہی!

             جنابِ سیِّدایوب علی شاہ صاحِب رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ ایک بار پِیلی بِھیت سے بریلی شریف بذرِیعۂ رَیل جارہے تھے۔ راستے میں نواب گنج کے اسٹیشن پرجہاں گاڑی صرف دو مِنَٹ کے لیے ٹھہرتی ہے، مغرِب کا وَقت ہوچکا تھا، آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے گاڑی ٹھہر تے ہی تکبیر اقامت فرما کر گاڑی کے اندر ہی نیّت باندھ لی، غالباً پانچ شخصوں نے اقتِداکی ان میں میں بھی تھا لیکن ابھی شریکِ جماعت نہیں ہونے پایا تھا کہ میری نظر غیر مسلم گارڈ پر پڑی جو پلیٹ فارم پر کھڑا سبز جھنڈی ہلا رہا تھا ، میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا کہ لائن کلیر تھی اور گاڑی چھوٹ رہی تھی، مگرگاڑی نہ چلی اور حضوراعلیٰ حضرت نے باطمینانِ تمام بِلا کسی اضطِراب کے تینوں فَرض رَکعتیں اداکیں اور جس وقت دائیں جانب سلام پھیرا تھا گاڑی چل دی ۔ مقتدیوں کی زَبان سے بے ساختہ سُبحٰنَ اللہ سُبحٰنَ اللہ سُبحٰنَ اللہ نکل گیا ۔ اِس کرامت میں قابل غور یہ بات تھی کہ اگر جماعت پلیٹ فارم پر کھڑی ہوتی تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ گارڈ نے ایک بُزُرگ ہستی کو دیکھ کر گاڑی روک لی ہوگی ایسا نہ تھا بلکہ نَماز گاڑی کے اندر پڑھی تھی ۔اِس تھوڑے وَقت میں گارڈ کو کیا خبر ہو سکتی تھی کہ ایک اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کا محبوب بندہ فریضۂ نَماز گاڑی میں ادا کرتا ہے ۔  (ایضا ًج ۳  ص ۱۸۹، ۱۹۰)  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

وہ کہ اُس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی

وہ کہ اُس در سے پِھرا  اللہ  اُس سے پھر گیا                              (حدائقِ بخشش شریف)

شرحِ کلامِ رضاؔ: جو کوئی سرکارِ نامدار ، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مُطِیع و فرمانبردارہُوا مخلوقِ پَرَوردَگار اُس کی اِطاعت گزار ہوگئی او ر جوکوئی دربارِ حُضورِ پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دُور ہُوا وہ بارگاہِ ربِّ غَفور عَزَّ وَجَلَّ سے بھی دُور ہو گیا ۔

 

Index