تذکرۂ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

بیداری میں دیدارِ مُصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

            میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ دوسری بار حج کے لیے حاضِر ہوئے تو مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں نبیِّ رَحمتِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی زیارت کی آرزو لیے روضۂـ اَطہر کے سامنے دیر تک صلوٰۃ وسلام پڑھتے رہے، مگر پہلی رات قسمت میں یہ سعادت نہ تھی۔ اِس موقع پر وہ معروف نعتیہ غَزَل لکھی جس کے مَطلَع میں دامنِ رَحمت سے وابَستگی کی اُمّید دکھائی ہے۔   ؎

وہ سُوئے لالہ زار پھرتے ہیں

تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں

شَرحِ کلامِ رضا: ؔاے بہار جھوم جا!  کہ تجھ پر بہاروں کی بہار آنے والی ہے۔ وہ دیکھ!  مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سُوئے لالہ زار یعنی جانِب گلزار تشریف لا رہے ہیں !

             مَقطَع میں بارگاہِ رسالت میں اپنی عاجِزی اور بے مایَگی  (بے ما۔یَہ۔گی یعنی مِسکینی ) کا نقشہ یوں کھینچا ہے:    ؎

کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ

تجھ سے شَیدا ہزار پھرتے ہیں

             (اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے مِصرعِ ثانی میں بطورِ عاجِزی اپنے لیے ’’کُتّے ‘‘ کا لفظ اِستِعمال فرمایا ہے مگر اَدَباً یہاں ’’شیدا‘‘ لکھا ہے)

شَرحِ کلامِ رضا: ؔاِس مَقطَع میں عاشقِ ماہِ رسالت سرکارِ اعلیٰ حضرت کمالِ انکساری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آپ سے فرماتے ہیں :  اے احمد رضا! ؔتو کیا اور تیری حقیقت کیا!  تجھ جیسے تو ہزاروں سگانِ مدینہ گلیوں میں یوں پھر رہے ہیں !

     یہ غَزَل عَرض کرکے دیدار کے اِنتظار میں مُؤَدَّب بیٹھے ہوئے تھے کہ قسمت انگڑائی لیکر جاگ اُٹھی اور چشمانِ سر (یعنی سر کی کھلی آنکھوں )  سے بیداری میں زیارتِ محبوبِ باری صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مُشرَّف ہوئے۔ (ایضاًص۹۲)  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

            سُبحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! قربان جائیے اُن آنکھوں پر کہ جو عالَمِ بیداری میں جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دیدار سے شَرَفیاب ہوئیں۔ کیوں نہ ہو کہ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے اندر عشقِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ’’فَنا فِی الرَّسول‘‘ کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کا نعتیہ کلام اس اَمر کا شاہد ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سیرت کی بعض جھلکیاں

    میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :  اگر کوئی میرے دل کے دو ٹکڑے کردے تو ایک پر لَا اِلٰہ اَلَّا اللہُ  اور دوسرے پر مُحَمَّدُ رَّسُول اللہ  (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) لکھا ہوا پائے گا۔  (سوانِح امام احمد رضا ص۹۶ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)

            تاجدارِ اہلسنّت، شہزادئہ اعلیٰ حضرت حُضُور مفتیٔ اعظم ہند مولانامصطفٰے رضا خان  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان   ’’سامانِ بخشش‘‘ میں فرماتے ہیں :

خدا ایک پر ہو تو اِک پر محمد

اگر قَلب اپنا دو پارہ کروں میں

            مَشائخِ زمانہ کی نظروں میں آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ واقِعی فَنا فِی الرَّسُول تھے۔ اکثر فِراقِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  میں غمگین رہتے اورسَرد آہیں بھرا کرتے۔ پیشہ وَر گستاخوں کی گُستاخانہ عبارات کو دیکھتے تو آنکھوں سے آنسوؤں کی جَھڑی لگ جاتی اور پیارے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی حمایت میں گستاخوں کا سختی سے رَدّ کرتے تاکہ وہ جُھنجھلا کر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کو بُرا کہنا اور لکھنا شُروع کردیں۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ اکثر اس پر فَخر کیا کرتے کہ باری تعالیٰ نے اِس دَور میں مجھے ناموسِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے لیے ڈھَال بنایا ہے۔ طریقِ استِعمال یہ ہے کہ بدگویوں کا سختی اور تیز کلامی سے رَد کرتا ہوں کہ اِس طرح وہ مجھے بُرا بھلا کہنے میں مصروف ہوجائیں۔ اُس وَقت تک کیلئے آقائے دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی شان میں گستاخی کرنے سے بچے رہیں گے۔حدائقِ

Index